uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

مغربی تمدن کا زوال


مغربی تمدن کا زوال
تہذیبیں / ثقافت ، معیشت ، سماج ، سیاست اور افکار و نظریات کی مختلف پرتوں سے تشکیل پاتی ہیں اسی لئے اگر کسی ایک تہہ میں تبدیلی رونما ہوجائے تو دوسری تہیں یا پرتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں ۔ مغربی تہذیب بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے ۔
گزشتہ چند عشروں میں مغربی معاشروں کی تاریخ میں ہونے والی مخالفتوں اور اعتراضات کی زیادہ تر وجہ اگرچہ اقتصادی مشکلات رہی ہیں لیکن اس سے مغربی لوگوں کی زندگی کے تمام پہلو متاثر ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر وال اسٹریٹ تحریک نے مغرب کے اقتصادی و سیاسی نظام سے اپنی مخالفت کا جتنا اظہار کیا ہے اتنا ہی اس سیسٹم کے نظریاتی اور ثقافتی پہلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
وال اسٹریٹ تحریک نے جو گزشتہ سال سترہ ستمبر ۲۰۱۱ کو کینڈا کے ایک جریدے کے اعلان پر امریکہ میں شروع ہوئی تھی ، اس نے بہت ہی مختصر عرصے میں امریکہ اور دوسرے صنعتی ملکوں کے ایک ہزار سے زیادہ شہروں کو تہہ و بالا کردیا تھا ۔ ہزاروں امریکیوں نے ان مظاہروں میں شرکت کی ، بہت سے لوگ پولیس کے ہاتھوں مجروح ہوئے اور بعض کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا ۔وال اسٹریٹ تحریک نے اپنی تمامتر کمیوں کے باوجود دنیا کے سامنے ان تمام حقیقی اور پیچیدہ مشکلات کواجاگر کردیا جو ایک ایسے معاشرے کے تانے بانے میں سمائی ہوئی ہیں جس کی باگ ڈور سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں میں ہے ۔
مغربی تہذیب کی بنیاد جس نظریئے پر ڈالی گئی ہے وہ درا صل لبرل ازم ہے ۔ اگرچہ اس نظریئے نے اپنے متناقض اور ناکارآمد اصولوں کی وجہ سے سرمایہ دارانہ ، نظام والے معاشروں میں لاتعداد بحران اور مشکلات پیدا کی ہیں ۔ اس دبستان فکر نے سب سے پہلے اقتصادی میدان میں اپنے وجود کا اظہار کیا اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کے وجود میں آنے کا سبب بنا ۔ میانہ رو یا لبرل معیشت اس معیشت کو کہتے ہیں جس میں معاشی سرگرمیوں میں حکومت یا بالکل دخیل نہ ہو یا اس کا کردار بہت ہی کم ہو ۔ یہ مسئلہ منفعت طلبی اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لبرل ازم کے اصول کی بنا پر سرمایہ دارانہ نظام والے معاشروں میں سرمایہ داروں اور امیروں کی روز افزوں طاقت کا سبب بنا ۔سرمایہ تھوڑے سے لوگوں کی مٹھی میں آگیا جس سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، عدم مساوات ، سیاسی و سماجی تعصبات اور مغربی معاشروں میں امیروں اور غریبوں کے درمیان گہری خلیج وجود میں آگئی ۔ انہیں تھوڑے سے لوگوں کو وال اسٹریٹ تحریک نے معاشرے کے ایک فیصد کا نام دیا ہے ۔سنہ ۲۰۱۰ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ایک فیصد لوگوں کا ملک کی بیالیس فیصد دولت پر قبضہ ہے جبکہ تیرہ فیصد قومی سرمائے پراسی فیصد لوگ گزارہ کرتے ہیں ۔
بے انتہا دولت اور قومی سرمائے کے تھوڑے سے ہاتھوں میں جمع ہوجانے سے صرف سماجی عدم مساوات ہی وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ ان سرمایہ داروں کی طاقت اور سماج میں ان کے اثر و رسوخ نے سیاسی اور سماجی ڈھانچوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی، عوام اور دانشوروں کی جانب سے مخالفت کی ۔ جب تک پیسہ اور دولت ان معاشروں میں عوام کے افکار و نظریات کو کسی خاص سمت میں لگانے اور سیاسی نمائندوں کے انتخاب میں مرکزی کردار ادا کرتے رہیں گے اس وقت تک سیاست داں ، دولت مند اقلیت کے مقروض اور احسانمند رہیں گے ۔ لہذا جب مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوں گے تو اپنے سیاسی مستقبل کے مد نظر دولتمند طبقے کے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دینگے ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ پولیس فورس کا رویہ اس بات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے کہ ان معاشروں کی حکومتیں تنقید برداشت نہیں کرسکتیں ۔ چنانچہ ایسے موقعوں پر آزادی بیان ، شہری حقوق اور جمہوریت کے دفاع کے اپنے دعووں کے برخلاف مغربی حکمراں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور انہیں محدود کرنے کی سمت میں قدم بڑھانے لگتے ہیں ۔
امریکہ میں " وطن پرستی " کا قانون ان جملہ قوانین میں سے ہے جو اس ملک کی حکومت اور خفیہ اداروں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ امریکی شہریوں کی ذاتی زندگی میں جاسوسی کریں اور ان کے ٹیلیفون و غیرہ سنے جائیں ۔ یورپی ممالک بھی اسی اصول پر کاربند ہیں ۔ مغربی عوام کی آزادی پر لگائی گئی ان ہی پابندیوں کی بنا پر وال اسٹریٹ پر مظاہرہ کرنے والوں میں سے ایک نے اپنے پلے کارڈ پر لکھ رکھا تھا " میں بے روزگار ہونے پر تیار ہوں اس شرط پر کہ مجھے بولنے کی آزادی ہو ۔"
سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی پوری زندگی یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر شخص کی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے یہاں تک کہ قوموں کے مقام کو عالمی سطح پر بلند کرنے پر قادر ہے اور یہ واحد نظام ہے جو عالمی مشکلات کو حل کرنے کی توانائی رکھتا ہے ۔ اسی بنا پر سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ حکومتوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کو دنیا میں پھیلانے جیسے مختلف بہانوں سے دوسرے ملکوں پر حملے کئے اور ان علاقوں میں جنگ کی آگ بھڑکائی ۔ جبکہ درپردہ ان تمام حملوں کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور ان علاقوں کی تباہی کے سوا کچھ اور نہیں تھا ۔ تہران یونیورسٹی میں ورلڈ اسٹڈیز شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر فواد ایزدی کے بقول : جس وقت امریکی عوام مغربی جمہوریت کو تمام دنیا کی حکومتوں کے لئے ایک آئیڈیل سمجھ رہے تھے ایسے میں وال اسٹریٹ تحریک نے سامنے آکر دکھا دیا کہ لوگ اب اپنے فیصلے اور اپنی سوچ پر نادم اور پشیمان ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اسی لبرل ڈیموکریسی کی توسیع کے نام پر بڑے بڑے فوجی حملے کئے ہیں اور اب تک ان جنگوں میں جس نے تیل کی بو آرہی ہے ہزاروں بے گناہ شہریوں اور غیر فوجی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارچکی ہے ۔
گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مغربی عوام اس نفرت انگیز احساس میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے اور ان کے حکام نے دنیا کی قوموں کے دفاع کے بجائے ان حکمرانوں کی حمایت کی ہے جنہوں نے آمریت کا سہارا لے کر اور مغرب سے وابستہ رہنے کی غرض سے اپنی قوموں کے حقوق کی خلاف ورزی اور مغربی حکومتوں کی مدد سے اپنے عوام کے مطالبات کی سرکوبی کی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ، قوموں کی حمایت اور جمہوریت کے قیام کے اپنے دعووں کے باوجود تیونس میں بن علی مصر میں مبارک ، لیبیا میں قذافی اور یمن میں صالح جیسے آمروں کی حکومت کو استحکام اور دوام عطا کیا ہے اور اب بھی دنیا میں جمہوریت مخالف استکباری حکومتوں کی پشتپناہی کررہا ہے ۔
فضول خرچی اور غیر ضروری چیزوں کے استعمال اور خریداری کا رجحان پیدا کرنا مغربی تہذیب کی سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک نمایاں نمونہ ہے ۔ صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں پیداوار کا غیر معمولی رجحان پیدا ہوا ۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں بڑی تعداد اور مقدار میں پیداوار کی جاتی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ مصرف اور استعمال کو بھی بڑھایا جائے ۔
فرانسیسی فلسفی راجر گیروڈی کا کہنا ہے : زیادہ پیداوار کے لئے زیادہ مصرف اور زیادہ استعمال آج کی معیشت کے لئے لازمی ہے ۔ وہ مزید کہتے ہیں : مغربی طرز کی آزاد معیشت منڈی کی مانگ کو پورا کرنے کے  لئے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد مصرف کے لئے بازار فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ سرمایہ داری کو جاری رکھنے کے لئے مصرف کو بڑھانا بہت اہم ہے ۔ کیونکہ اگر مصرف اور استعمال نہیں ہوگا تو پیداوار نہیں ہوگی اور ظاہر ہے کہ پھر منافع بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
آج مصرف اور فضول خرچی کا مغربی تہذیب کو ابھارنے میں مرکزی کردار ہے لیکن کسی سوچی سمجھی اور محدود شکل میں نہیں بلکہ ایسی لامحدود شکل میں جس کا انسان کی روزمرہ کی ضروریات اور بنیادی خواہشات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔
ایلن تھین ڈرننگ اپنی کتاب " کتنا کافی ہے " میں لکھتے ہیں : فضول خرچ معاشروں میں ہم میں سے بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ نعمتوں سے بھری ہوئی یہ دنیا ایک طرح سے کھوکھلی ہے ، اور ہم فضول خرچی کی ثقافت پر فریفتہ ہیں اور اس بے کار کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مادی چیزوں کے ذریعے خوشیاں حاصل کریں ۔
امریکی محقق اپنی لئونارڈ کے مطابق امریکہ میں قومی سطح پر زیادہ مصرف کا رجحان کم ہورہا ہے ۔ کیونکہ وہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اگرچہ ان کے پاس سامان بہت زیادہ ہے لیکن ان کے پاس صحیح معنوں میں خوشیاں فراہم کرنے والوں جیسے خاندان اور دوستوں و غیرہ کے لئے وقت نہیں ہے ۔ اصولی طور پر صنعتی پیداواروں کا استعمال بڑھنے سے کام کا دبا کم ہونا چاہئے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پیداوار بڑھنے سے غیر ضروری چیزوں کا مصرف بڑھ جاتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ پہلی ضروریات ابھی پوری ہورہی ہوتی ہیں کہ نئی خواہشات سراٹھانے لگتی  ہیں ۔
ایک مغربی دانشور جان اسٹپورٹ مل کہتے ہیں : یہ نئی نئی مشینی ایجادات جو ابتک ہوچکی ہیں انہوں نے نہ جانے انسان کی روزمرہ کی زحمتوں اور مشقتوں کو کس حد تک کم کیا ہے ۔
مغربی تہذیب انسانی تاریخ کی تمام تہذیبوں کی مانند اپنے سے پہلے کی تمام تہذیبوں کی مقروض اور ان سے متاثر ہے ۔ لیکن اس تہذیب و تمدن کو جو چیز دوسری تمام تہذیبوں سے الگ کرتی ہے وہ یہ  ہے کہ اس میں انسان اور عالم ہستی کی تعریف بیان کرتے وقت صرف مادیات کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور معنوی ضروریات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے تمامتر سائنسی اور صنعتی ترقی کے باوجود انسان خود کو بے ہدف ، غیر محفوظ اور بے چین پاتا ہے ۔ جرائم ، دہشت گردی ، روحانی و نفسیاتی امراض ، خاندانوں کا بکھرتا شیرازہ اور لوگوں کے درمیان انسانی ہمدردی اور جذبات کا فقدان آج مغربی تہذیب کی بڑی مشکلات ہیں ۔ عالمی ادار صحت نے رپورٹ دی ہے کہ نفسیاتی امراض دولت مند اور ترقی یافتہ ملکوں میں دوسرے ملکوں کی بہ نسبت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور ۲۰۲۰ تک نفسیاتی بیماریاں انسانوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب ہوں گی ۔ظاہر ہے کہ یہ مغربی تہذیب کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے جس کے بارے میں بہت سے مغربی دانشور ، فلاسفہ اور ماہرین سماجیات خبردار کرتے رہے ہیں ۔جی ہاں مغربی تہذیب کے سامنے سب سے بڑا بحران معنویت پر عقیدہ نہ رکھنے کا بحران ہے جسکا علاج انسان کے ذریعے بنائے گئے اصولوں اور نظریات کی مدد سے نہیں کیا جا سکتا۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.