uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

گناہان کبیرہ ’’گانا‘‘


گناہان کبیرہ
گانا
ایک ایسا گناہ جسے صاف الفاظ میں گناہِ کبیرہ بتایا گیا ہے گانا گانا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقولہ اعمش کی روایت میں بھی یہ صراحت موجود ہے محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
(قال) الغِنآ مِما اوعداللہ علیہ النار  (فروغِ کافی، بابِ غنا)
 گانا ایک ایسا گناہ ہے، جس پر خدا نے جہنم کا عذاب رکھا ہے۔
اور دیگر بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ ہروہ گناہ،گناہِ کبیرہ ہے جس پر عذاب کی بات خدا وندِ تعالی نے کی ہو۔
گانا کیا ہے؟
سید مرتضیٰ اپنی کتاب "وسیلہ" میں فرماتے ہیں:
العنآ حرام فعلہ وسِماعہ والتکسب بہ ولیس ھو مجرد تِحسِینِ الصوتِ، بل ھو مدالصوتِ و ترجِیعہ بکیفی خاص مطرِبہ تناسِب مجلس اللھوِ و الطربِ۔
گانا حرام ہے، گانا سننابھی حرام ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا بھی حرام ہے، البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے بلکہ گانا ایک خاص انداز میں آواز کو کھینچے اور حلق میں مخصوص انداز سے گھمانے کو کہتے ہیں، جو کہ لہو ولعب اور عیش وطرب کی محفلوں میں رائج ہے، ایسا گانا موسیقی کے آلات سے عام طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے۔
اکثر شیعہ مجتہدین لغت کے ماہرین کی طرح کہتے ہیں کہ گانا آواز کو حلق میں گھمانے کوکہتے ہیں، (کلاسیکی موسیقی اور بعض قوالیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آآآآ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے، لغت "صحاح" میں لکھتا ہے کہ گانا ایک ایسے انداز کی آواز کو کہتے ہیں جو انسان کو غیر معمولی حد تک غمگین یا خوش کردیتی ہو، تقریبا ایسے ہی معنی دیگر لغتوں میں درج ہیں، بس گانا ایک ایسی آواز ہے جو آدمی کو ایک کہف وسرور یا غم کی حالت میں ڈال دیتی ہو۔
کتاب ذخیر العباد میں لکھا ہے کہ:
گانا لہوولعب کی خاطر نکالی گئی ہر ایسی آوازکو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت ابھرے، خواہ وہ کلاسیکی موسیقی کی طرح حلق میں آواز گھمانے سے پیدا ہوتی ہو یا کسی اور طریقے سے الغرض عرفِ عام میں جسے گانا کہا جاتا ہو وہ حرام ہے، پس اگر اشعار، قرآن یا نوحے مرثیے بھی گانے کی طرز پر پڑھے جائیں تو یہ بھی گناہ ہے، بلکہ عام گانے سے زیادہ بڑا گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اس طرح قرآنِ مجید اور نوحے مرثیے کی بے حرمتی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا گناہ اور عذاب دگناہے۔
گانا، گناہِ کبیرہ
جب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ
گانا ایسی چیزوں میں سے ہے جس پر خداوندِ تعالی نے عذاب کا قول دیا ہے۔
 تو یہ آیت شریفہ بھی تلاوت فرمائی تھی:
ومِن الناس من یشتری لھو الحدِیثِ لِیضل عن سبِیلِ اللہِ بِغیرِعِلم و یتِخذھاھزو ااولئِک لھم عذاب مھِین (لقمان)۔
اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو بیہودہ چیزیں خریدتے ہیں تا کہ بغیر سوچے سمجھے وہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں اور خدا کی نشانیوں کا مذاق اڑائیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑارسواکردینے والا عذاب ہے!
آیت میں "لہوالحدِیثِ" سے مرادگان
اس آیت شریفہ اور امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بھی لہو الحدیث یعنی بیہودہ چیزوں میں سے ایک ہے، بیہودہ چیز کوئی نامناسب بات، حرکت یا شاعری وغیرہ ہوسکتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور جو انسان کو فائدے سے محروم کردے دوسرے الفاظ میں کلامِ حق اورقرآنِ مجید کی بات ماننے سے روک دینے والی ہر چیز لہوالحدِیث ہے، گمراہ کردینے والی ہر چیز لہو الحدِیث ہے فسق وفجور، عیاشی اور فحاشی کی طرف مائل کرنے والی ہر چیز لہوالحدِیث ہے خواہ وہ گانا سننا ہو یا خودگانا ہو، یہ ایسی ہی بیہودہ چیزیں ہیں، اوپر جو آیت پیش کی گئی اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے :
واِذاتتلی علیہ ایتناولی مستکبِرا کن لم یسمعھاکان فِی اذنیہِ وقرا فبشرِہ بعِذب الِیم  (لقمان)۔
قول الزورِ" کی تفسیر
گانے باجے کے لئے قرآنِ مجید میں لہوالحدِیث کے علاوہ لفظ قول الزور بھی استعمال ہو اہے، امام جعفر صادقؑ سے ابوبصیر نے اس آیت شریف کی تفسیر بوجھی تھی واجتنِبوا قول الزورِ (حج) "اور لغو باتوں سے بچے رہو۔" امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا تھا  (قال) الغِنا  یعنی " گانا لغو بات ہے۔" اور امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی : والذِین لا یشھدون الزور (فرقان)" اور وہ لوگ قریب کے پاس دیکھنے کے لئے کھرے ہی نہیں ہوتے" پھر اس آیت شریفہ کی تفسیرپوچھی گئی تو امام محمد تقی علیہ السلام نے جواب دیا  (قال) الغِنآ  یعنی " یہاں زور یا فریب سے مراد گاناہے" (شیخ طوسی کی کتاب امالی" اور کتاب کافی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حماد ابن عثمان نے اِسی آیت شریفہ کے بارے میں بوچھا تو امام محمد تقیؑ نے فرمایا:  (قال) مِنہ قول الرجلِ الذِی یغنِی
اس میں ایسے شخص کی بے ہودہ باتیں بھی شامل ہیں جو گارہا ہو۔
گا نا "لغو" ہے
اسی آیت شریفہ کے بعد والا ٹکڑا ہے واِذا مروا باللغوِ مروا کِراما ( فرقان)" اور جب وہ کسی چیز کے پاس سے گزرتے تو خداکو آلودہ کئے بغیر پہلو بچالیتے ہیں اور اپنی شرافت محفوظ رکھتے ہیں" اسی طرح ایک اور آیت میں ہے والذِین ھم عنِ اللغوِ معرِضون (مومنون) "اور جب لوگ لغو باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔"
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ان دونوں آیتوں میں مومنین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں یہاں "لغو" سے کیا مراد ہے؟ توان دونوں معصوموں نے اپنے اپنے زمانے میں یہی فرمایا تھا کہ : لغو دراصل گانا باجا ہے اور خدا کے بندے اس میں آلودہ ہونے سے بچے رہتے ہیں۔"  (کتابِ"کافی" اور کتاب عیون اخبارِ الرضا) "
آپس میں نفاق اور گانا
عن اِبِیعبدِ اللہِ قال امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: استِماع الغِنِآِ والھوِ ینبِت النِفا ق فِی القلبِ کما ینبِت الما الزوع  (کتاب"کافی")
 گانے باجے کو اور بے ہودہ باتوں کو غور سے سننا دل میں نفاق کو اسی طرح پیدا کردیتا ہے جس طرح پانی سبزے کی نشوونما کا باعث بنتاہے۔
کافی ہی میں چھٹے امام علیہ السلام کی یہ روایت بھی موجود ہے کہ
ھل غنآ عش النِفاقِ " گانا باجا نفاق جیسے پرندے کا گھونسلا ہے۔"
گانے کا پروگرام
جس جگہ گانا باجا ہوتا ہے وہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا
لا تد خلوا بیوتا اللہ معرِض عن اھلِھا  (کتاب کافی)
ایسے گھروں میں داخل بھی مت ہو جس کے رہنے والوں پر سے خدا نے اپنی نظرِرحمت ہٹالی ہو!"
یہی امام علیہ السلام فرماتے ہیں بیت الغِنآِ لا یومن فِیہِ الفجِی "جس گھر میں گانا باجا ہوتا ہے وہ ناگہانی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتا!" ولا یجاب فِیہِ الدعو "ایسے مقام پر دعا مستحب نہیں ہوتی!۔" ولا یدخلہ الملک  (کتابِ "کافی" اور مستدرک الوسائل باب ) "اور ایسی جگہ فرشتے نہیں آتے!" اور گزری ہوئی حدیثوں سے اسی کتاب میں ثابت ہوچکا ہے کہ جب خدا کا غضب نازل ہوتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، پس یہ عذر کافی نہیں ہے کہ ہم تو ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں گانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن دل سے بیزار ہیں، بیزاری عملی طور پر ہونی چاہیے اور گانے باجے کو روکنا چاہیے۔
گانا اور فقر و فاقہ
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے والغِنآ یورِث النِفاق و یعقِب الفقر
اور گانا باجا نفاق پیدا کرتا ہے اور فقر و فاقہ کا باعث بنتا ہے!" (مستدرک الوسائل باب)
گانے کا عذاب
حضر ت رسولِ خداﷺ سے مروی ہے کہ یحشر صاحِب الغِنآِ من قبرِ ہ اعمی وآخر س وابکم  (جامع الاخبار) "گانا گانے والا شخص اپنی قبر سے جب میدانِ حشر میں نکلے گا تو اندھا بھی ہوگا، بہرا بھی ہوگا اور گونگا بھی ہوگا !" روایت میں یہ بھی ہے کہ گانے گانے والوں کو اسی علامت سے پہچاناجائے گا!
آنحضرتﷺ کایہ ارشاد بھی ہے کہ
 (قال) من اِستمع اِلی اللھوِیذاب فِی اذنِہ الانک  (تجارت،مستدرک الوسائل، باب) "
 جو شخص گانا باجا غور سے سنے گا اس کے کان میں پگھلا ہو ا سیسہ ڈالاجائے گا!"
رحمتِ خداسے محرومی
قطب راوندی نے پیغمبرِ اکرمﷺ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ " گانا گانے والا شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن پر قیامت کے دن خدا نظرِ رحمت نہیں ڈالے گا!"
گلوکار سے محبت
عن ابِی جعفر علیہ السلام قال امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: من اصغی اِلی ناطِق فقدعبدہ "جو شخص کسی بولنے والے کا احترام کرے گا وہ گویا اس کا بندہ ہوجائے گا!" فاِن کان الناطِق یودِی عنِ اللہِ عزوجل فقد عبد اللہ واِن کان الناطق یودِی عنِ الشِیطانِ فقد عبد الشیطان  (فروغِ کافی ،گانے کا باب) " اگر بولنے والا شخص خدا کی طرف لے جاتا ہو تو احترام کرنے والا شخص خدا کی عبادت کرتا ہے اور اگر وہ شیطان کی طرف لے جاتا ہو تو وہ شیطان کی عبادت کر بیٹھتا ہے!"
چھٹے امام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ : جو شخص بھی گانا گانے کی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دو شیطان دونوں کندھو ں پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس وقت اپنے پیر کی ایڑی اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا گانا ختم نہیں ہوجاتا!" پس جب شیطان گلوکار کو لات مارتے ہوں تو ایساشخص محبت کئے جانے کے کہاں لائق ہے!
بہشت میں سریلی آوازیں
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے  (عن ابِی الحسنِ قال) من نزہ نفسہ عنِ الغِنآِ فاِن فِی الجنتِ شجریمراللہ الرِیاح ان تحرِکھا فیسمع لھا صوتا لم یسمع بِمِثلِہ ومن لم یتنزہ عنہ لم یسمعہ (کتاب " کافی") یعنی " جو شخص خود کو گانے سے بچائے رکھے گا تو خدا سے جنت میں ایک درخت میں سے آواز سنوائے گا کہ ایسی اچھی آواز کسی نے نہیں سنی ہوگی ! اور جو شخص اپنے آپ کو گانے سے نہیں بچائے گا وہ ایسی آواز نہیں سن سکے گا۔"
جنت میں خوبصورت نغمے
حضرت رسول اکرمﷺ کی یہ حدیث تفسیر مجمع البیان میں موجود ہے کہ : "جوشخص بہت گانے سنتا رہا ہو وہ روحانیوں کی آواز قیامت میں نہیں سننے گا"پوچھا گیا۔  یا رسول اللہ ! یہ روحانی کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جنت میں خوش الحانی سے گانے والے۔"
اور حضرت علیؑ کا یہ قول نہج البلاغہ میں موجود ہے داود سیِد قرآِ اھلِ الجنِ یعنی " حضرت داود علیہ السلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔"
جنت میں لوگ حضرت داد علیہ السلام سے ایسے عمدہ نغمے سنیں گے کہ دنیا میں ان کی مثال نہیں ملتی ہوگی البتہ ایسے ہی لوگ سن سکیں گے جو دنیا میں گانا سننے سے پرہیز کرتے ہوں۔
سخت تنبیہ
پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں: " ظھر فِی  امتِی الخسف والقذف" میری امت میں ایسے واقعات ظاہر ہوں گے کہ زمین دھنس جایا کرے گی اور آسمان سے پتھر برسا کریں گے!" قالو متی ذلِک؟ "لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کب ہوگا؟" قال اِذاظھرتِ المعازِف والِقینات وشرِبتِ الخمور آنحضرتﷺ نے فرمایا: "جب گانے باجے کے آلات عام ہوں گے ، گانا گانے والی لڑکیاں کثرت سے ہوں گی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال پھیل جائے گا! "
واللہِ لیبِیتن اناس مِن امتِی علی اشرو بطرو لعِب فیصبِحون قرِد و خنازِیر لِاستِحلالِھِم الحرام واتخاذِھِم القیناتِ وشربِھِم الخمور واکلِھِم الرِبا و لبسِھِم الحرِیر  (وسائل الشیعہ کتاب التجارہگانے کا باب)
"خدا کی قسم میری امت کے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو رات کو مستی اور عیاشی کے عالم میں گذاریں گے اور صبح درحقیقت بندروں اور سوروں کی مانند ہوجائینگے! یہ اس سبب ہوگا کہ وہ حرام کو حلال سمجھتے ہونگے۔ گانا گانے والی لڑکیوں میں مگن ہونگے نشہ آور چیزیں استعمال کریں گے سود کا مال کھائینگے اور ریشمی کپڑے پہنتے ہوں گے!"
گانا اور زنا
گانا زنا کا سبب بن جاتا ہے، رسولِ خداﷺ کا ارشاد ہے  (عنِ النبِیِ) الغِنآ رقی الزِنا  (مستدرک الوسائل کتاب تجارت) "گانا زنا کی سیڑھی ہے!"
گانے سے آدمی کی شہوت ابھرآتی ہے اور اس کے برے نتائج سامنے آجاتے ہیں، نہ صرف گانے سے شہوت ابھرتی ہے بلکہ گانا سننے سے بھی یہی حال ہوتا ہے، آدمی خدا سے غافل ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بدکاری کے لئے آمادہ نظر آتا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے والملاھِی التِی تصد عن ذِکرِاللہِ کالغِنآِ وضربِ الاوتارِیعنی " اور لہو ولعب کے وہ تمام کام گناہِ کبیرہ ہیں جو خداوندِ تعالے کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں مثلا گانا باجا اور موسیقی کے آلات کا استعمال!"
جی ہاں موسیقی نہ صرف شرم و حیا اور غیرت کو ختم کردیتی ہے بلکہ محبت انسانیت اور رحم جیسے جذبات کو بھی فنا کر دیتی ہے، الغرض معاشرے کو جہنم کا نمونہ بنا دیتی ہے!
گانے کے حرمت
شیعہ مجتہدین کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گانا حرام ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ گانے کی حرمت پر اجماع موجود ہے، کتاب "مستند" کے مولف فرماتے ہیں کہ گانا باجا کو حرام ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے، یعنی اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ گانا باجا حرام نہیں ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا! کتاب "ایضاح" کے مولف فرماتے ہیں کہ گانے باجے کو حرام قرار دینے کے سلسلے میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں۔
البتہ گانے کے معنی میں اور اس کی تعریف تھوڑا بہت اختلاف موجود ہے، اکثر مجتہدین یہی کہتے ہیں کہ ہر وہ آواز جو عیش و طرب کی خواہش اور جنسی قوت کو ابھار سکتی ہو وہ گانا باجاہے اور حرام ہے۔
قرآنِ مجید گانے کے انداز میں
جس طرح کہ پہلے بیان ہوا، گانے کے طرز پر قرآنِ مجید پڑھنا یا نوحہ مرثیہ پڑھنا یا اذان دینا بھی حرام ہے، اِس سلسلے میں نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ مقدس چیزوں کو گانے کے طرز پرپڑھنے کا گناہ دگناہے، ایک تو گانے کی آواز نکالنے کا گناہ اور دوسرے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کا گناہ۔
اچھی آواز میں قرآن پڑھنا
البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے، خوش الحانی سے گلے میں آواز گھمائے بغیر اگر تلاوتِ قرآن کی جائے یا نوحہ مرثیہ پڑھ جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے، رسولِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے
 (قال رسول اللہ) اِقروالقرآن بالحانِ العربِ واصواتِھا "قرآن عرب لوگوں کے لہجے میں خوش الحانی سے پڑھاکرو۔"
واِیاکم ولحون اھلِ الفِسقِ واھلِ الکبائِرِفاِنہ سیجی اقوام یرجِعون القرآن ترجِیع الغِنآوالنوحِ والرھبانِیِلایجوز ترا قِیھِم قلوبھم مقلو ب وقلو ب من یعجِبہ شا نھم  (وسائل الشیعہ، کتاب صلو)"
تم کو فاسقوں اور گناہِ کبیرہ کرنے والوں سے پرہیز کرنا چاہیے، یقینا ایسے لوگ دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو گا کر رلانے والوں اور راہبوں کے طرز پر پڑھا کریں گے، ایسے لوگوں کے پاس جانا یا ان کو اپنے پاس بلانا جائز نہیں ہوگا، ایسے لوگوں کے دل الٹے ہوئے ہوں گے اور جو لوگ ایسوں سے متاثر ہوں گے ان کے دِل بھی ایسے ہی الٹے اور کج ہوں گے!"
خوبصورت آواز اور گانا
قیامت قریب ہونے کی علامتیں ذکر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں :ایسے لوگ بھی دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو دنیاوی مقاصد کے لئے حفظ کریں گے اورگانے کے طرز پر تلاوت کریں گے۔"
البتہ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں، جیسا کہ ذکر ہوا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھی آواز میں قرآن کی تلاوت مستحب ہے، بس اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ گانے کے طرز پر نہ ہو۔
لڑکی کی شادی میں گانا بجانا
بعض مجتہدین نے تین شرطوں کے ساتھ شادی کے موقع پر عورتوں کو گانے کی اجازت دی ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ گاناسننے والوں میں کوئی مرد موجود نہ ہو، یہاں تک کہ محرم مرد بھی موجودنہ ہوں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ گانے فحش نہ ہوں اور جھوٹی باتوں پر مشتمل نہ ہوں۔
تیسری شرط یہ ہے کہ گانے کے ساتھ ڈھول تاشہ اور دیگر بجانے کے آلات استعمال نہ ہوں۔
بعض علماء نے دف (یعنی ایسا ڈھول جس کے ایک ہی طرف کھال ہو) شادی میں بجانے کی اجازت دی ہے، شہیدِ ثانی اورمحققِ ثانی فرماتے ہیں کہ دف شادی میں اس صورت میں بجانا جائز ہے جب کہ اس کے اطراف میں جھنجھنے نہ لگے ہوں۔
لیکن احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں، شیخ انصاریؒ "مکاسب" میں شہید ِثانی کتاب"دروس" میں اورسید مرتضی کتاب" وسیلہ " میں اس موضوع پر یہی فرماتے ہیں : الاِحتِیاط طرِ یق النجاِ یعنی احتیاط ہی نجات کا راستہ ہے۔

زائرین کی نظروں کے سامنے، تربتِ امام حسین (ع) خون میں بدل گئی


زائرین کی نظروں کے سامنے، تربت امام حسینؑ خون میں بدل گئی
ایک رپورٹ کے مطابق عاشورا کے خون بار واقعے کو تقریبا ۱۴ صدیاں گذرنے کے باوجود، آسمان و زمین میں وہ زخم آج بھی تازہ ہیں اور سیدالشہدا امام حسین علیہ السلام کی یاد میں پوری کائنات عزادار ہے ۔
تازہ ترین عاشورائی واقعے میں اتوار ۱۰ محرم الحرام ۱۴۳۴ (۲۶/نومبر ۲۰۱۲) کو عاشورائے اباعبداللہ علیہ السلام کے موقع پر سیدالشہدا علیہ السلام کے میوزیم میں رکھی ہوئی قبر شریف امام حسین (ع) کی اصل تربت کا رنگ خون میں بدل گیا۔
یہ واقعہ عینی شاہدین کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے اور عاشورائے حسینی کے موقع پر رونما ہوا اور میوزیم کے اہلکاروں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے، اس واقعے کی تصویریں آستان مقدس حضرت علمدار کربلا ابوالفضل العباس علیہ السلام سے ویب سائٹ "الکفیل" نے شائع کی ہیں۔
نیز آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے اور آستان امام حسین علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام والمسلمین شیخ عبدالمہدی الکربلائی نے ذاتی طور پر میوزیم میں جاکر اس واقعے کا مشاہدہ کیا اور ہزاروں افراد نے میوزیم کا دورہ کیا۔
تربت شریف کی تصویریں ملاحظہ ہوں:
شیعہ اور سنی کتب میں منقولہ معتبر احادیث میں مروی ہے کہ جبرائیل امین (ع) نے کربلا کی خاک میں سے تھوڑی سی مٹی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر کے ساتھ ہی رسول اکرمۖ کے سپرد کی اور رسول اکرمۖ نے وہ مٹی ام الممنین حضرت ام سلمہ کے پاس رکھ لی اور فرمایا:
 "جب اس مٹی کا رنگ خون کے رنگ میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرے فرزند حسین (علیہ السلام) کربلا کی سرزمین پر قتل ہوئے ہیں"۔
حدیث کا متن یہ ہے:
عمر بن ثابت نے اعمش سے اور اعمش نے شقیق سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ نے کہا: ایک دن حسن اور حسین علیہما السلام میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل (ع) نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کرے گی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ رسول اللہ (ص) روئے اور امام حسین (ع) کو اپنے سینے سے لگایا، اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے جبرائیل کی دی ہوئی مٹی کو سونگھا اور فرمایا "اس سے کرب و بلا کی بو آرہی ہے۔ اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ام سلمہ! میں یہ مٹی تمہارے پاس رکھتا ہوں اور جب یہ خون میں بدل جائے تو جان لو کہ میرے بیٹے حسین قتل کئے گئے ہیں۔
سنی محدثین  جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے  میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
ابن حجر عسقلانی، "تہذیب الہذیب"،
ابن ابی بکر ہیثمی، "مجمع الزوائد"
الطبرانی، "المعجم الکبیر"













سوڈانی عالم دین کا تاریخی فتویٰ: شیعہ مذہب کی پیروہ


سوڈانی عالم دین کا تاریخی فتویٰ: شیعہ مذہب کی پیروہ
ایک رپورٹ کے مطابق، اسلامی بیداری کے عروج کے اس زمانے میں علاقے  بالخصوص شمالی افریقہ میں  امت مسلمہ کی ہمدرد شخصیات کی توجہ اسلام کے حلفیہ دشمنوں کا سامنا کرنے کے لئے  مسلمانان ِعالم کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر مرکوز ہوئی ہے۔
سوڈان کی ہیئالعلما کے سربراہ "پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح" اہم اسلامی ملک "سوڈان" اور شمالی افریقہ کی اہم اسلامی شخصیات اور نامور علمائے دین میں سے ہے، جنہوں نے مذہب فقہ جعفریہ اثنا عشری کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی پیروی کو جائز اور اسلامی مذابب کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو ان اہم موضوعات میں سے ایک قرار دیا جن کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے زمانے کے اس حساس مرحلے میں اپنا تاریخی فتویٰ جاری کیا اور صہیونی ریاست سمیت اسلام کے تمام حلفیہ دشمنوں کے سامنے اسلامی امت کے ہر فرد کو وحدت، یکجہتی اور یکدلی کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے سوڈان سے شائع ہونے والے روزنامے "اخبارالیوم" مورخہ ۱۳ دسمبر ۲۰۱۲ء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
 "شیعہ اور سنی مذاہب کے درمیان نوے فیصد مسائل (اصول و فروع) مشترکہ ہیں، خداوند متعال نے قرآن مجید میں ہر مسلمان فرد کو مخاطب قرار دیا ہے اور ان کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہوا ہے"۔
شیخ محمد عثمان صالح نے تمام عرب اقوام سے درخواست کی ہے کہ ایران، ترکی اور پاکستان کی ملتوں کے ساتھ  متحد ہوجائیں اور اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے اور خلیج حائل کرنے کی غرض سے دشمنانِ اسلام کی ہونے والی منحوس سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
انھوں نے کہا:
 "آپ اندازہ لگائیں کہ اگر اہل سنت اور اہل تشیع کے دو مذاہب کے تمام پیروکار کفر کے سرغنوں کے مقابلے میں متحد و متفق ہوجائیں تو کیا عظیم طاقت معرض وجود میں آئے گی! اور کیا حالت ہوگی جب سنی مذاہب کی قوت شیعہ مذہب کی طاقت کے ساتھ مل کر کفر کے خلاف متحد ہوجائیں؟
انھوں نے کہا:
اسلامی دنیا کی تمام تر توجہ صہیونی ریاست کی طرف مبذول ہونی چاہئے کیونکہ صہیونی ریاست مسلم امہ کا حقیقی دشمن ہے۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے تمام اقوام اور حکومتوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا:
 علاقے میں شیعہ فوبیا کے سلسلے میں ہونے والی سازش اور تشہیری مہم کا فوری طور پر سد باب کریں اور صہیونی ریاست کو  جو امت مسلمہ کا دشمن نمبر ایک ہے  شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہ دیں۔
عثمان صالح نے آخر میں میں مذاہب "اہل تشیع اور اہل سنت" کے درمیان اشتراکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
 "شیعہ اور سنی کے دو مذاہب کے درمیان 90 فیصد اشتراکات پائے جاتے ہیں اور ان دو مذاہب کے درمیان جزوی اختلافات بھی محض تاریخی اختلافات ہیں"۔
پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح نے یہ فتوی ایسے حال میں جاری کیا ہے کہ وہابی دین کے پیروکار  صہیونی اور مغرب کی طرف سے اسلام فوبیا (مغربی دنیا کو اسلام سے خوفزدہ کرنے) کے حوالے سے جاری تشہیری مہم کے موقع پر  شیعہ فوبیا (اور مسلمانوں کو مذہب شیعہ سے خوفزدہ کرنے) کی سازش پر عمل پیرا ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے حوالے سے مغربی اور صہیونی قوتوں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے مسلمانوں کے جاری قتل عام میں ملوث ہیں۔
علاقے کے ممالک  بالخصوص شمالی افریقی ممالک  میں اسلامی بیداری کی لہر کے آغاز کے بعد اسلام اور مسلمین کے حلفیہ دشمن مختلف قسم کی سازشوں اور شبہات کے ذریعے خالص محمدی اسلام پر مبنی تفکر کی ترویج و فروغ کا راستہ روکنے کے درپے ہیں اور مختلف قسم کے منصوبوں سے اسلامی بیداری کی اس عظیم لہر کو منحرف کرکے اپنے مفاد میں ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ایسے حال میں پروفیسر شیخ محمد عثمان صالح جیسی نمایاں شخصیت کا تاریخی فتویٰ  جو دنیائے اسلام میں اثر و نفوذ کے مالک اور سوڈان و شمالی افریقہ کے صاحب رائے و نظر دینی راہنما ہیں  اسلامی امت کی عظیم تحریک میں ایک نہایت اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔


۲۱ دسمبر کا فتنہ:دنیا کا اختتام قرآن کی نظر میں


۲۱ دسمبر کا فتنہ:دنیا کا اختتام قرآن کی نظر میں
دنیا:
انسان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا کا مستقبل ہمیشہ اس کی آنکھوں سے اوجھل رہا ہے اور ہمیشہ یہ سوال اس کے ذہن میں موجود رہا ہے کہ دنیا کے خاتمے پر کیا ہوگا؟ یہ سوال بالکل دنیا کے آغاز کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کی مانند ہے جن کا جواب بے شمار فرضیات کے باوجود فراہم نہیں کیا جاسکا ہے اور دنیا کے آغاز کے بارے میں جو کچھ بھی انسان کے سامنے ہے سائنسدانوں کے فرضیات اور نظریات تک ہی محدود ہے جن کو کسی صورت میں بھی یقینی علم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
ایک فارسی شاعر کا کہنا ہے:
ما ز آغاز وز انجام جہان بی خبریم
اول و آخر این ہنہ تاب افتادہ است
ہم اس دنیا کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں
اس پرانی کتاب کا دیباچہ اور نتیجہ (گویا) حذف ہوچکا ہے
بہت سے سائنسدان  زمین کی موجودہ صورت حال اور اس کو درپیش بحرانوں کی وجہ سے فکرمند ہیں اور ایسے حقائق کے بارے میں عام طور پر تحقیق کرتے ہیں جو کسی دن حیات کے اختتام اور نیلے سیارے کی نابودی پر منتج ہوسکتے ہیں۔
عرصے سے جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب سے باقیماندہ بعض پیشن گوئیوں کی بنا پر 2012 کو دنیا کے اختتام کا سال قرار دیا جارہا ہے جو در حقیقت ایک عالمی ڈرامہ ہے کیونکہ سائنسدانوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہونے کے بارے میں کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔
یہاں ہم تاریخی اور علم شواہد نیز سنہ 2012 میں دنیا کے اختتام کے بارے میں پیش کردہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:
اس میں شک نہیں ہے کہ شواہد اور قرائن اس دنیا کی نابودی کا پتہ دے رہے ہیں اور تمام الہی اور غیرالہی ادیان یا نظریات و مکاتب میں اس حوالے سے وسیع بحث ہوئی ہے۔
قرآن مجید میں بھی اس موضوع پر مفصل بات ہوئی ہے اور اس زمانے کو ہولناک اور عظیم قرار دیا گیا ہے جب یہ عالم نیست و نابود ہوگا جس میں آسمان و زمین کی بساط الٹنے اور پہاڑوں اور سمندروں کے درہم برہم ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔
زرتشتیوں (پارسیوں) کے متون میں ہے کہ:
در آسمان نشانہ گوناگون پیدا باشد (زند بہمنیسن، ص 11، ف 6 ، بند 4) آسمان میں گوناگون نشان نمایاں ہونگے۔۔۔
انجیل میں ہے کہ:
اور سورج، چاند اور ستاروں میں علامتیں نمایاں ہونگی اور اس وقت [لوگ] انسان کا بیٹا (عیسی مسیح) کو دیکھیں گے جو بادل پر سوار ہے اور قوت و جلال عظیم کے ساتھ آئے گا۔ (تاب مقدس، عہد جدید، ص 133، انجیل لوقا، ب 21 ، بند 25 و 27)۔
روایات کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرخ رنگ کے ستارے کا طلوع ہونا اور ایک شہاب ثاقب یا دمدار ستارے کا گرجانا، زمین میں خسف، دھنسنے اور نگلنے کا عمل، وہ علامتیں ہیں جو قرب ظہور کا پتہ دیتی ہیں۔
احادیث و روایات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے سال کے ماہ مبارک رمضان کے دوران دنیا میں عجیب واقعات بکثرت رونما ہونگے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوط سے لے کر اس زمانے تک بے مثل ہونگے۔
ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کا زمین سے ٹکرنا آخرالزمان کے حوالے سے منقولہ روایات میں اس قدر قوی ہے کہ ان کی بنیاد پر متعدد فلمین بن ہیں اور اس کو روئے زمین پر موجودہ حیات کا اختتام اور ایک نئے عصر کا آغاز سمجھا گیا ہے اور اس کا زمانہ 2012 قرار دیا گیا ہے!
قرآن مجید اور اسلامی روایات و احادیث میں صراحت کے ساتھ آخر الزمان میں ستاروں کے ایک دوسرے سے ٹکرنے اور سورج کے تاریک ہونے اور سیاروں کے نظام کے درہم برہم ہونے اور شدید زلزلے رونما ہونے اور آتشفشانوں کے فعال ہوجانے کو قرب قیامت کی علامتیں قرار دیا گیا ہے تا ہم زمانہ ظہور اس اس سے پہلے بھی ایک دم دار ستارے کے زمین سے ٹکرنے کی پیشنگوئیاں ہیں جس میں بہت بڑی آبادی آبادی کے مرنے کی خبر دی گئی ہے لیکن یہ اختتام عالم نہیں ہے اور پھر اس کے لئے کسی تاریخ کا تعین بھی نہیں ہوا ہے۔
آخرالزمان
ظہور امام زمانہ (عج) قریب ہونے پر بھی آسمان میں غیرمعمولی علائم ظاہر ہونے کی پیشنگوئی ہوئی جیسے: ایک سرخ رنگ کا ستارہ ظاہر ہوگا جو جنگ اور وسیع خونریزیوں کے آغاز کی علامت ہوگا؛ وقت زوال سے غروب تک سورج آسمان میں رکا رہے گا؛ سورج مغرب سے طلوع ہوگا؛ وغیرہ و غیرہ اور یہ واقعات زمین اور آب و ہوا پر اثرانداز ہونگے اور گہری تبدیلیوں کا سبب بنیں گے۔
دنیا کا آختتام قرآن کی نظر میں
قرآن مجید موجودہ عالم کے زوال اور نیستی کو عدم محض کے مترادف قرار نہیں دیتا بلکہ اس کو ایک عمل کے ایک حصے میں قرار دیتا ہے اور ایک مفہوم کے مطابق اس کے لئے کوئی انتہا اور اختتام قابل تصور نہیں ہے، وہ یوں کہ موجودہ دنیا اور عالم مادی نئے شکل و شمائل والے نئے عالم میں تبدیل ہوگا اور اس کا جوہر ذات مختلف ہوگا۔ مادی دنیا کی نئے عالم میں بدلنے کے لئے اس دنیا کے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کی ضرورت ہے جس کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:
"یوم تبدل الرض غیر الرضِ والسماوات ..."  (سورہ ابراہیم آیت 48)
جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے ... ۔
جو کچھ  قرآنی آیات  حتیٰ کہ بعض مخصوص سورتوں سے جن میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے  ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ یہ عالم ایک شکل سے دوسری شکل میں بدلتے اور نئی صورت میں ظاہر ہوتے وقت حوادث اور واقعات سے دوچار ہوگا جن کو قرآن مجید میں "اشراط الساع" سے تعبیر کیا گیا ہے: سورہ محمد (ص) آیت 26 میں ارشاد ربانی ہے:
تو کیا یہ (منکر) لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں (اشراط) آپہنچی ہیں۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ قیامت نمایاں ہونے سے قبل بعض معاشرتی تبدیلیاں، نظام فطرت کا انتشار اور آسمان و زمین کی بساط پلٹنا، قرب قیامت کی نشانیاں ہیں، روایات میں بھی معاشرتی نظامات کی تبدیلیوں اور آسمان و زمین میں بڑی تبدیلیوں کو اشراط الساعہ یا قیامت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اس زمانے میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات  جیسے آسمان میں دھواں اور گیس ظاہر ہونے، صور کے پھونکے جانے، سورج، چاند اور ستاروں کے تاریک ہوجانے، سیاروں کے پھٹ جانے، شدید زلزلے رونما ہونے اور پہاڑوں کو ٹوٹ جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
قیامت کا زمانہ واضح کیوں نہیں کیا گیا؟
قیامت کی کیفیت اور اس کے وقت کا نامعلوم ہونے سے متعدد تربیتی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اگر اس کا زمانہ معین ہو اور یہ زمانہ دور بھی ہو تو غفلت سے پر طاری ہوجائے گی اور اگر قریب ہو تو لوگ مجبور ہوکر بدیوں سے اجتناب کریں گے اور ان کی آزادی اور اختیارات سلب ہوجائیں گے۔
اس کے باوجود کہ قیامت کے وقوع کا زمانہ غیر معینہ ہے قرآن مجید کی تعبیروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی مختصر سی عمر نیز برزخ کا دور اس قدر تیز رفتاری سے گذرتا ہے کہ جب قیامت بپا ہوگی تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ پورا دور کچھ گھنٹوں سے زیادہ نہ تھا؛ ارشاد ربانی ہے:
اور وہ کہتے ہیں: یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو ٭ فرما دیجئے کہ (اس کے وقت کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو صرف واضح ڈر سنانے والا ہوں (اگر وقت بتا دیا جائے تو ڈر ختم ہو جائے گا) ٭ پھر جب اس (دن) کو قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور (ان سے) کہا جائے گا: یہی وہ (وعدہ) ہے جس کے (جلد ظاہر کیے جانے کے) تم بہت طلب گار تھے۔ (سورہ ملک آیات 25 تا 27)
ارشاد فرماتا ہے:
یسل الناس عنِ الساعِ قل ِنما عِلمہا عِند اللہِ وما یدرِی لعل الساع تون قرِیبا۔
لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو۔
خداوند یکتا اپنے نبی عظیم الشانﷺ سے  جو علم لدنی اور علم نبوی کے مالک ہیں  کو حکم دیتا ہے کہ آپﷺ لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کے وقوع کے وقت سے آگہی نہیں رکھتے اور اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے تا کہ آج کے زمانے کی طرح ہر کوئی قیامت کے لئے وقت کا تعین نہ کرے کیونکہ اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ قیامت لوگوں سے نہاں رہے تا کہ ہر کوئی اپنے وجودی صلاحیتوں کو ظاہر کرے اور اگر قیامت کے وقت اور اس کی کیفیت کو جاننا لازمی ہوتا تو اللہ تعالی خود ہی اس کو بیان فرماتا۔
قیامت:
فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ ہوکر) کب اٹھائے جائیں گے ٭بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص ہے، مگر وہ اس سے متعلق محض شک میں ہی (مبتلا) ہیں، بلکہ وہ اس (کے علمِ قطعی) سے اندھے ہیں۔  (سورہ نمل آیات 65 و 66)۔
ہم کہہ چکے کہ خداوند متعال نے قیامت کے وقت کو بعض مصلحتوں کی بنا پر بیان نہیں کیا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پس ہے، تاہم ظہور کی علامتوں کے بارے میں ہمارے پاس ایسی روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن اس کے لئے وقت کے تعین کے سلسلے میں کوئی روایت وارد نہیں ہوئی ہے اور اگر ایسی کوئی روایت وارد ہوئی ہو تو وہ درست نہ ہوگی کیونکہ وہ روایت قرآن کی آیات سے متصادم ہوگی اور یہیں سے معلوم ہوگا کہ وہ روایت معصومؑ سے صادر نہیں ہوئی ہے اور پھر ہمارے ائم عظیم الشان نے ظہور اور بالآخر قیامت کے لئے وقت متعین کرنے سے روک رکھا ہے۔
وقت کے تعین سے ممانعت کی روایت
غیبت (امامؑ کے غائب ہونے) کے بارے میں وارد ہونے والی روایات میں ایک مکرر اور مکد مضمون توقیت (یعنی وقت ظہور کے تعین) سے ممانعت کی روایات سے عبارت ہے، یہ روایت رسول اللہﷺ سے لے کر امام زمانہ علیہ السلام تک سے وارد ہوئی ہے اور شدید اور سخت عبارتوں کی شکل میں نقل ہوئی ہے، جب ظہور کو سرِ الہی قرار دیا گیا ہے اور اس کے وقت کا تعین خداوند متعال پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے "کذِب الوقاتون". (رجوع کریں الغیب (شیخ طوسی) اکمال الدین و اتمام النعم (شیخ صدوق) کتاب الغیب (نعمانی) اصول کافی (کلینی) اور دیگر منابع)
اس طرح کی روایات جو اگر متواتر نہ ہوں تو مستفیض ضرور نظر آتی ہیں قابل غور ہیں اور انسان کے دوش پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں۔ جس طرح اپنے خیال میں صحیح وقت کا تعین توقیت کے زمرے میں آتا ہے؛ واقعات کو حدود ظہور یا حدود قیامت کے عنوان سے بیان کرنا بھی توقیت کے زمرے میں آتا ہے۔
مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ وہ دس بجے ملاقات کے لئے آئے گا یا دس اور گیارہ بجے کے درمیان ملاقات کے لئے آئے گا اس نے گویا اپنی ملاقات کے لئے وقت کا تعین کیا ہے لہذا اگر اس متعینہ وقت پر ملاقات نہ ہوسکے تو اس شخص پر وعدہ خلافی کا الزام عائد ہوگا اور وعدہ خلافی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
چنانچہ وہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں کہ مثلا امام مہدی علیہ السلام کے ظہور میں صرف دس سال رہتے ہیں یا آج کے بوڑھے بھی امام زمانہؑ  کا دیدار کرسکیں گے ان کو ایسا کہنے سے روکا گیا ہے اور ظہور کے لئے وقت کے تعین کی نفی کی گئی ہے۔
اب بعض لوگ  جن کا دنیا میں یہ تنا پیدا کرنے سے اصل مقصد و ہدف معلوم نہیں ہے  اپنے اعتقادات یا فرضیات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ فلاں وقت دنیا کے اختتام کا وقت ہے یا ظہور و قیامت کا وقت ہے اور اس سلسلے میں طاقتور ابلاغی و تشہیری ذرائع اور ٹیلی ویژن و سینما وغیرہ جیسے تمام اوزاروں کو بروئے کار لا کر اپنے پلید افکار کو لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں تا کہ اس خفیہ مقصد تک پہنچ سکیں۔
جو مسلمان اپنے دین اور قرآن پر ایمان کامل رکھتا ہے اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس طرح کے جھوٹے القائات کو قبول کرے اور اس کو اپنے امور  و معاملات پر اثر انداز ہونے دے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ وہ ہر وقت قیامت کی ہولناکیوں کے بارے میں سوچے اور اپنے اعمال پر کڑی نگرانی کرے کیونکہ اس کے پاس اللہ کے سوا کوئی مفر اور پناہگاہ نہیں ہے اور بس مومنین ہیں اہل فلاح اور رستگار اور نجات یافتہ ہیں اور صرف اللہ ہی کی پتاہ میں ہر گزند سے امان پاتے ہیں۔
اب ان لوگوں کو پناہگاہ بنانے دیں جو لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے وقت اور فرائض کا تعین کرتے ہیں اور اپنے آپ کو نجات یافتہ اور جدید دنیا کے وارث قرار دیتے ہیں؛ اور انہیں جان لینا چاہئے کہ:
"ید اللہِ فوق یدِیہِم"۔ (سورہ فتح آیت 10)
اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں کے اوپر۔
ممکن نہیں ہے کہ وہ اس انجام سے چھٹکارا پائیں جو ان کا انتظار کررہا ہے اور اللہ تعالی نے ان کو اس کا وعدہ دیا ہے۔