uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

نظر اور نگاہ کے شرعی احکام ۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم اپنے محترم دوستوں اور ساتھیوں کو فکری اور روحانی خوراک مہیا کرنے کی غرض سے سوال و جواب کا ایک علمی سلسلہ اس امید سے شروع کر رہے ہیں کہ اللہ اس ذریعے سے ہم سب کو احکامِ دین پر عمل کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے۔
                                      آغاز ہم ’’نگاہ اور نظر کے شرعی احکام‘‘ سے کریں گے۔

قرآن اور نامحرم پرنگاہ
سوال۱: کیا نامحرم پہ نگاہ کرنے کے بارے میں قرآن میں کوئی آیت موجود ہے؟
قل للمومنین یغضو من ابصارھم (نو ر آیت /٣٠)
مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم سے بچا کہ رکھو
وقل للمو منا ت یغضن من ابصا رھن(نو ر آیت/ ١٩)
مومن عو رتوں سے کہہ دو اپنی نگا ہوں کو نیچی رکھیں۔
          اہم بات یہ ہے کہ اگر انسان یہ جان جائے کہ ''کائنات اللہ کی بارگاہ ''اور یقین کرے کہ اس کا کوئی عمل اور کوئی حرکت خدا سے پو شیدہ نہیں ہے اور اس بات کو بار بار دل میں دہرائے تا کہ اس کے دل کو یقین حاصل ہو کہ ایسے عمل کر تر ک کر دینا ممکن اور قابل عمل ہے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔
پیغمبر اکر مۖ ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
یابن آدمؑ وان نا زعک بصر ک الی بعض ما حرمت علیک فقد اعنتک علیہ بطبقتین فا طبق (اصول کافی ج٨ ص/٢١٩)
'اے فرزند آدم ! اگر تمہا ری آنکھیں تمہیں نا محر م پہ نگا ہ ڈالنے پر مجبو ر کریں تو میں نے دو پلکیں تمہیں عطا کی ہیں ان کے ذریعے سے اپنی آنکھوں کو بند کر و۔
پیغمبر اکرمۖ فرماتے ہیں: قیامت کے دن تین آنکھوں کے علاوہ تمام آنکھیں روئیں گی :
١۔وہ آنکھ جو خوف خدا سے روئے،
٢۔ وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو نہ دیکھیں،
٣۔ وہ آنکھ جو اللہ کی یاد میں بیدار رہیں،
حضرت امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
النظر سہم مسموم من سھا م ا بلیس من تر کھا اللہ عز و جل لا لغیر ہ اعقبہ امنا وایما نا یحد طعمہ (محمدی ری شہری میزان الحکمۃ ج٤ ص ٢٢٩٢ نشردار لحدیث)
بری نگاہ شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک ہے جس شخص نے اللہ کی خاطر اسے ترک کر دیا اللہ اسے ایمان اور اطمینان کی دولت عطا کرتا ہے اور وہ اطمینان اور سکون کی لذت اپنے باطن میں محسوس کرتا ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو بھی اپنی آنکھوں کو آزاد رکھتا ہے اس کی حسرتیں بڑھ جاتیں ہیں''(بحارالانوار ج١٤ ص ٣٨)
          اپنے باطن کی حفاظت باہر کی غلاظتوں سے دوری اور اپنے روح دل کو اللہ کے سپرد کر دینے سے انسان شیطان کی دستبرد سے محفوظ رہتا ہے اور اگر انسان اپنے دل ونگاہ کی حفاظت کے باوجود فریب نظر کا شکار ہو جائے اور کسی پر غلط نگاہ ڈال لے تو احساس ہوتے ہی توبہ کر کے اس کی تلافی کر سکتا ہے اور اس گناہ کے اثرات سے اپنے آپ کو پاک کر سکتا ہے۔
          اہم بات تو یہ ہے کہ حرام نگاہ انسان کی عادت نہ بن جائے اور اس برے عمل کی قباحت ختم نہ ہو جائے یعنی اس کو ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے دل اور آنکھ کی اس طرح حفاظت کرے کہ اگر گناہ کا شکار ہو بھی جائے تو توبہ کے ہتھیار کے ذریعے اس باطنی دشمن کو تباہ کر دے، کیونکہ اگر نگاہ آزاد ہو جائے تو وہ ہر چیز کو دیکھنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ عمل عادت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور عادت سے چھٹکارا بہت مشکل ہوتا ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ :
کس شخص کی عادت چھڑانا معجزہ سے کم نہیں (بحارالانوار ج١٤ ص ٣٨)
          اگر انسان کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ بہت سی آلودگیاں اخلاقی برائیاں اور انحرافات ایک ایسی حرام نگاہ کا نتیجہ ہے جس کے بعد بہت دفعہ اس کی نگاہیں حرام کی طرف اٹھتی ہیں اور اسے توبہ کی توفیق بھی نہیں ملی تھی، تو یہی بات ایک ہوشیار اور بیدار انسان کو بہت سی دیگر غلطیوں سے بچا سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.