uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

والدین کی خدمت بہترین جہاد ہے





والدین کی خدمت بہترین جہاد ہے
دادا اور نواسی
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں راہِ خدا میں جہاد کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔
 آنحضرتﷺ نے فرمایا:
 پس راہِ خدا میں جہاد کرو، بے شک اگر تم مارے گئے تو اللہ کے نزدیک زندہ رہو گے اور رزق پاؤ گے اور اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہو گا، اگر سلامتی کے ساتھ واپس آئے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہو گے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔
اس شخص نے کہا:
یا رسول اللہﷺ، میرے والدین زندہ ہیں اور بڑھاپے کی حالت میں ہیں اور مجھ سے کافی انس رکھتے ہیں، مجھ سے جدائی ان کو پسند نہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا:
اگر ایسا ہے تو ان کی خدمت میں ٹھہر جا، قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، والدین سے ایک دن رات انس میں رہنا ایک سال کے مسلسل جہاد سے افضل ہے۔
 یہ روایت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ہے کہ فرمایا:
کن بارا و اقتصِر علی الجن، واِن کنت عاقا فاقتصِر علی النارِ
والدین کے خدمت گار بن کر جنت میں مقام حاصل کر لو اور اگر والدین کے عاق ہو گئے تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لو۔
والدین سے نیکی گناہوں کا کفارہ ہے
ماں باپ سے نیکی بہت سارے گناہوں کا کفارہ ہے، چنانچہ روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
یا رسول اللہ ، ایسا کوئی برا کام باقی نہیں بچا جس کا میں مرتکب نہ ہوا ہوں۔ کیا میرے لیے توبہ ہے؟
آنحضرت نے فرمایا:
جا! باپ کے ساتھ نیکی کرو تا کہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو، جب وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اس کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔
والدین کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے
آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:
رِضی اللہِ مع رِضی الولِدینِ وسخط اللہِ مع سخطِ الوالِدینِ (بحارالانوار)
والدین کی رضامندی میں اللہ کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
آپﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
بین الانبِیاِ والبارِدرج وبین العاقِ والفراعِنہِ درک (مستدرک)
والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بہشت میں پیغمبروں سے صرف ایک درجہ کے فرق پر ہو گا اور والدین کا عاق شدہ جہنم میں فراعنہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہو گا۔
والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے کے لیے ملائکہ کی دعائیں
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
بِرالوالِدین اکبر فرِیض۔
والدین کے ساتھ نیکی کرنا واجباتِ الہیہ میں سب سے بڑا فریضہ ہے۔
حضرت رسول خداﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کے دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے:

اللھم احفِظِ البارِین بِعِصمتِک (مستدرک)

خدایا! والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو (تمام برائیوں اور آفتوں) سے محفوظ رکھ۔
دوسرا فرشتہ کہتا ہے:
اللھم اھلِکِ العاقِین بِغضبک (مستدرک)
خداوندا! جن لوگوں سے ان کے والدین ناراض ہیں، انہیں اپنے غضب کے ذریعہ ہلاک فرما۔
اس میں شک نہیں کہ فرشتوں کی دعا قبول درگاہ الہی ہوتی ہے۔
عا ق کا دنیوی اثر
          مذکورہ احادیث میں عاق والدین کے لیے آخرت کے عقوبات بیان ہوئے ہیں، عاق ہونا ایک ایسا گناہ ہے کہ اس کے وضعی و طبعی آثار اور ردِ عمل آخرت سے پہلے ہی اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں، چنانچہ حضرتِ خاتم الانبیا نے فرمایا:
ثلاث مِن الذنوبِ تعجِل عقوبتھا ولاتوخِر الآخِر عقوق الوالِدینِ والبغی علی الناس وکفرِ الاِحسانِ (بحارالانوار)
گناہوں میں تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا عجلت سے اس دنیا میں دی جاتی ہے اور قیامت تک تاخیرنہیں کی جاتی، ان میں سے پہلے والدین کا عاق ہونا، دوسرے اللہ کے بندوں پر ظلم کرنا اور تیسرے احسان پر ناشکری کرنا۔
حضرت امام محمدباقر (علیہ السلام) نے فرمایا:
صدق السِرِتطفِی غضب الربِ وبِرالوالِدینِ وصِل الرحِمِ یزیدانِ فِی الاجلِ (بحارالانوار)
مخفی طور پر صدقہ دینا پروردگار کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور والدین کے ساتھ نیکی و قرابت داروں سے صلہ رحم عمر کو دراز کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:
البِر وصدق السِرِ ینفِیانِ الفقر ویزِیدان فِی العمرِ ویدفعان عں سبعِین میت سو (بحارالانوار)
ماں باپ سے نیکی اور پوشیدہ خیرات کرنے سے فقر دور ہوتا ہے اور یہ دونوں عمر کو طویل کرتے ہیں اور ستر قسم کی بری موت اس سے دور ہوتی ہے۔
یہ بھی فرمایا کہ:
من یضمِن لِی بِر الوالِدینِ وصِل الرحِمِ اضمِن لہ کثر المالِ وزِیار العمر والمحب فِی العشِیر (مستدرک)
جو کوئی مجھے یہ ضمانت دے کہ والدین سے نیکی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے گا تو میں بھی اسے کثرت مال اور درازی عمر کے علاوہ اپنے قبیلہ میں محبوب بننے کی ضمانت دوں گا۔
حضرت امام نقی (علیہ السلام) نے فرمایا:
العقوق یعقِب القِل ویودِی اِلی الذِلِ
والدین کی ناراضگی سے (روزی کی) کمی اور ذلت پیچھا کرتی ہے۔
عاقِ والدین گدائی و بد نصیبی کا سبب بنتا ہے
مدینہ منورہ کے ایک دولت مند جوان کے ضعیف ماں باپ زندہ تھے، وہ جوان ان کے ساتھ کسی قسم کی نیکی نہیں کرتا تھا اور انہیں اپنی دولت سے محروم کیے ہوئے تھا۔
چنانچہ اللہ تعالی نے اس جوان سے اس کا سب مال و دولت چھین لیا، وہ ناداری ، تنگ دستی اور بیماری میں مبتلا ہو گیا اور مجبوری و پریشانی انتہا کو پہنچ گئی۔
جناب رسول خداﷺ نے فرمایا جو کوئی ماں باپ کو تکلیف پہنچاتا ہے اسے اس جوان سے عبرت حاصل کر نی چاہیئے۔
دیکھو ! اس دنیا میں اس سے مال ودولت واپس لے لی گئی، اس کی ثروت و بے نیازی فقیری میں اور صحت بیماری میں تبدیل ہو گئی، اس طرح جو درجہ اس کو بہشت میں حاصل ہونا تھا، وہ ان گناہوں کے سبب اس سے محروم ہو گیا، اس کی بجائے آتشِ جہنم اس کے لیے تیار کی گئی ۔ (سفین البحار)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ:
جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کرنے مصر تشریف لائے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی ظاہری سلطنت اور شان و شوکت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد بزرگوار کے احترام کے لیے اپنی سواری سے نیچے نہیں اترے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنا ہاتھ کھو لیے، آپ (علیہ السلام) نے جب ہاتھ کھولا تو اس سے ایک روشنی نکلی اور آسمان کی طرف بلند ہوئی۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دریافت کیا یہ نور جو میرے ہاتھ سے نکلا اور آسمان کی جانب چلا گیا، یہ کیا تھا؟
جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا، نبوت کا نور آپ (علیہ السلام) کے صلب سے باہر نکل گیا، کیونکہ آپ (علیہ السلام) نے اپنے والد کا احترام بجا نہیں لایا تھا اس لیے آپ (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے کسی کو پیغمبری نہیں ملے گی۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترے لیکن یہ تکبر اور بے اعتنائی کی وجہ سے نہیں تھا، کیونکہ انبیائے کرام (علیہم السلام) ہر قسم کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں، البتہ اپنی سلطنت اور شان و شوکت کا اعلی مقام برقرار رکھنے اور رعایا پر رعب و دبدبہ بٹھانے کی خاطر تھا۔
عاق والد ین کا برا انجام
عاق والدین کے وضعی آثار میں سے ایک اثر برا انجام ہے، اس کے بر عکس والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے عاقبت سنور جاتی ہے، جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:
من احب ان یخفِف اللہ عنہ سکرات الموتِ فلیکن لِقرابتِہِ وصولا ولوالِدیہِ بارا فاِذا کان کذلِک ھون اللہ علیہِ سکرات الموتِ ولم یصبہ فِی حیوتہ فقر ابدا  (سفین البحار جلد  ص)
جس کی خواہش ہو کہ جان کنی کی کیفیت اس پر آسان ہو جائے، اسے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم اور والدین کے ساتھ نیکی بجا لانا چاہیئے۔ جب کوئی ایسا کرے گا تو خداوند عالم موت کی سختیاں اس پر آسان کر دے گااور وہ شخص زندگی بھر کسی پریشانی و تنگ دستی میں نہ ہوگا۔
والدین کی دعا جلد مستجاب ہوتی ہے
ماں باپ اولاد کے حسن سلوک کے یا بدسلوکی کے نتیجے میں جو بھی دعا کرتے ہیں، وہ بارگاہِ الہی میں ضرور قبول ہوتی ہے، اس بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، اس سلسلے کی ایک روایت دعائے مشلول کی فضیلت میں نقل ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک نوجوان کا اپنے باپ کی بد دعا کے نتیجے میں سیدھا ہاتھ بے کار ہو گیا تھا، وہ نوجوان باپ کی وفات کے بعد متواتر تین سال مسجد الحرام میں ساری رات بارگاہِ رب العزت میں گڑ گڑا کر دعائیں کرتا تھا، ایک دن مولائے متقیان حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کو اس نوجوان پر ترس آیا، چنانچہ آپ نے اسے دعائے مشلول تعلیم فرمائی اور وہ نوجوان اس دعا کی برکت سے شفا یاب ہو گیا۔
ماں حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ سزاوار ہے
ماں کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے، چنانچہ حضرت رسول خداﷺ نے ماں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے سلسلے میں تین مرتبہ تکرارا حکم دیا ہے اور چوتھی مرتبہ باپ سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ والدین میں کس کا حق زیادہ ہے؟
آپ نے فرمایا:
کیا ماں وہی ہستی نہیں ہے جس نے مدتوں تجھے اپنے رحم میں اٹھائے رکھا اور اس کے بعد وضعِ حمل کی سختیاں برداشت کیں؟ پھر اپنی چھاتی سے تیرے لیے غذا مہیا کی، پس ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ (مستدرک)

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.