uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

گناہان کبیرہ ’’گانا‘‘


گناہان کبیرہ
گانا
ایک ایسا گناہ جسے صاف الفاظ میں گناہِ کبیرہ بتایا گیا ہے گانا گانا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقولہ اعمش کی روایت میں بھی یہ صراحت موجود ہے محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
(قال) الغِنآ مِما اوعداللہ علیہ النار  (فروغِ کافی، بابِ غنا)
 گانا ایک ایسا گناہ ہے، جس پر خدا نے جہنم کا عذاب رکھا ہے۔
اور دیگر بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ ہروہ گناہ،گناہِ کبیرہ ہے جس پر عذاب کی بات خدا وندِ تعالی نے کی ہو۔
گانا کیا ہے؟
سید مرتضیٰ اپنی کتاب "وسیلہ" میں فرماتے ہیں:
العنآ حرام فعلہ وسِماعہ والتکسب بہ ولیس ھو مجرد تِحسِینِ الصوتِ، بل ھو مدالصوتِ و ترجِیعہ بکیفی خاص مطرِبہ تناسِب مجلس اللھوِ و الطربِ۔
گانا حرام ہے، گانا سننابھی حرام ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا بھی حرام ہے، البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے بلکہ گانا ایک خاص انداز میں آواز کو کھینچے اور حلق میں مخصوص انداز سے گھمانے کو کہتے ہیں، جو کہ لہو ولعب اور عیش وطرب کی محفلوں میں رائج ہے، ایسا گانا موسیقی کے آلات سے عام طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے۔
اکثر شیعہ مجتہدین لغت کے ماہرین کی طرح کہتے ہیں کہ گانا آواز کو حلق میں گھمانے کوکہتے ہیں، (کلاسیکی موسیقی اور بعض قوالیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آآآآ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے، لغت "صحاح" میں لکھتا ہے کہ گانا ایک ایسے انداز کی آواز کو کہتے ہیں جو انسان کو غیر معمولی حد تک غمگین یا خوش کردیتی ہو، تقریبا ایسے ہی معنی دیگر لغتوں میں درج ہیں، بس گانا ایک ایسی آواز ہے جو آدمی کو ایک کہف وسرور یا غم کی حالت میں ڈال دیتی ہو۔
کتاب ذخیر العباد میں لکھا ہے کہ:
گانا لہوولعب کی خاطر نکالی گئی ہر ایسی آوازکو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت ابھرے، خواہ وہ کلاسیکی موسیقی کی طرح حلق میں آواز گھمانے سے پیدا ہوتی ہو یا کسی اور طریقے سے الغرض عرفِ عام میں جسے گانا کہا جاتا ہو وہ حرام ہے، پس اگر اشعار، قرآن یا نوحے مرثیے بھی گانے کی طرز پر پڑھے جائیں تو یہ بھی گناہ ہے، بلکہ عام گانے سے زیادہ بڑا گناہ ہے، اس لئے کہ اس میں اس طرح قرآنِ مجید اور نوحے مرثیے کی بے حرمتی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا گناہ اور عذاب دگناہے۔
گانا، گناہِ کبیرہ
جب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ
گانا ایسی چیزوں میں سے ہے جس پر خداوندِ تعالی نے عذاب کا قول دیا ہے۔
 تو یہ آیت شریفہ بھی تلاوت فرمائی تھی:
ومِن الناس من یشتری لھو الحدِیثِ لِیضل عن سبِیلِ اللہِ بِغیرِعِلم و یتِخذھاھزو ااولئِک لھم عذاب مھِین (لقمان)۔
اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو بیہودہ چیزیں خریدتے ہیں تا کہ بغیر سوچے سمجھے وہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں اور خدا کی نشانیوں کا مذاق اڑائیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑارسواکردینے والا عذاب ہے!
آیت میں "لہوالحدِیثِ" سے مرادگان
اس آیت شریفہ اور امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بھی لہو الحدیث یعنی بیہودہ چیزوں میں سے ایک ہے، بیہودہ چیز کوئی نامناسب بات، حرکت یا شاعری وغیرہ ہوسکتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور جو انسان کو فائدے سے محروم کردے دوسرے الفاظ میں کلامِ حق اورقرآنِ مجید کی بات ماننے سے روک دینے والی ہر چیز لہوالحدِیث ہے، گمراہ کردینے والی ہر چیز لہو الحدِیث ہے فسق وفجور، عیاشی اور فحاشی کی طرف مائل کرنے والی ہر چیز لہوالحدِیث ہے خواہ وہ گانا سننا ہو یا خودگانا ہو، یہ ایسی ہی بیہودہ چیزیں ہیں، اوپر جو آیت پیش کی گئی اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے :
واِذاتتلی علیہ ایتناولی مستکبِرا کن لم یسمعھاکان فِی اذنیہِ وقرا فبشرِہ بعِذب الِیم  (لقمان)۔
قول الزورِ" کی تفسیر
گانے باجے کے لئے قرآنِ مجید میں لہوالحدِیث کے علاوہ لفظ قول الزور بھی استعمال ہو اہے، امام جعفر صادقؑ سے ابوبصیر نے اس آیت شریف کی تفسیر بوجھی تھی واجتنِبوا قول الزورِ (حج) "اور لغو باتوں سے بچے رہو۔" امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا تھا  (قال) الغِنا  یعنی " گانا لغو بات ہے۔" اور امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی : والذِین لا یشھدون الزور (فرقان)" اور وہ لوگ قریب کے پاس دیکھنے کے لئے کھرے ہی نہیں ہوتے" پھر اس آیت شریفہ کی تفسیرپوچھی گئی تو امام محمد تقی علیہ السلام نے جواب دیا  (قال) الغِنآ  یعنی " یہاں زور یا فریب سے مراد گاناہے" (شیخ طوسی کی کتاب امالی" اور کتاب کافی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حماد ابن عثمان نے اِسی آیت شریفہ کے بارے میں بوچھا تو امام محمد تقیؑ نے فرمایا:  (قال) مِنہ قول الرجلِ الذِی یغنِی
اس میں ایسے شخص کی بے ہودہ باتیں بھی شامل ہیں جو گارہا ہو۔
گا نا "لغو" ہے
اسی آیت شریفہ کے بعد والا ٹکڑا ہے واِذا مروا باللغوِ مروا کِراما ( فرقان)" اور جب وہ کسی چیز کے پاس سے گزرتے تو خداکو آلودہ کئے بغیر پہلو بچالیتے ہیں اور اپنی شرافت محفوظ رکھتے ہیں" اسی طرح ایک اور آیت میں ہے والذِین ھم عنِ اللغوِ معرِضون (مومنون) "اور جب لوگ لغو باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔"
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ان دونوں آیتوں میں مومنین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں یہاں "لغو" سے کیا مراد ہے؟ توان دونوں معصوموں نے اپنے اپنے زمانے میں یہی فرمایا تھا کہ : لغو دراصل گانا باجا ہے اور خدا کے بندے اس میں آلودہ ہونے سے بچے رہتے ہیں۔"  (کتابِ"کافی" اور کتاب عیون اخبارِ الرضا) "
آپس میں نفاق اور گانا
عن اِبِیعبدِ اللہِ قال امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: استِماع الغِنِآِ والھوِ ینبِت النِفا ق فِی القلبِ کما ینبِت الما الزوع  (کتاب"کافی")
 گانے باجے کو اور بے ہودہ باتوں کو غور سے سننا دل میں نفاق کو اسی طرح پیدا کردیتا ہے جس طرح پانی سبزے کی نشوونما کا باعث بنتاہے۔
کافی ہی میں چھٹے امام علیہ السلام کی یہ روایت بھی موجود ہے کہ
ھل غنآ عش النِفاقِ " گانا باجا نفاق جیسے پرندے کا گھونسلا ہے۔"
گانے کا پروگرام
جس جگہ گانا باجا ہوتا ہے وہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا
لا تد خلوا بیوتا اللہ معرِض عن اھلِھا  (کتاب کافی)
ایسے گھروں میں داخل بھی مت ہو جس کے رہنے والوں پر سے خدا نے اپنی نظرِرحمت ہٹالی ہو!"
یہی امام علیہ السلام فرماتے ہیں بیت الغِنآِ لا یومن فِیہِ الفجِی "جس گھر میں گانا باجا ہوتا ہے وہ ناگہانی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتا!" ولا یجاب فِیہِ الدعو "ایسے مقام پر دعا مستحب نہیں ہوتی!۔" ولا یدخلہ الملک  (کتابِ "کافی" اور مستدرک الوسائل باب ) "اور ایسی جگہ فرشتے نہیں آتے!" اور گزری ہوئی حدیثوں سے اسی کتاب میں ثابت ہوچکا ہے کہ جب خدا کا غضب نازل ہوتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، پس یہ عذر کافی نہیں ہے کہ ہم تو ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں گانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن دل سے بیزار ہیں، بیزاری عملی طور پر ہونی چاہیے اور گانے باجے کو روکنا چاہیے۔
گانا اور فقر و فاقہ
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے والغِنآ یورِث النِفاق و یعقِب الفقر
اور گانا باجا نفاق پیدا کرتا ہے اور فقر و فاقہ کا باعث بنتا ہے!" (مستدرک الوسائل باب)
گانے کا عذاب
حضر ت رسولِ خداﷺ سے مروی ہے کہ یحشر صاحِب الغِنآِ من قبرِ ہ اعمی وآخر س وابکم  (جامع الاخبار) "گانا گانے والا شخص اپنی قبر سے جب میدانِ حشر میں نکلے گا تو اندھا بھی ہوگا، بہرا بھی ہوگا اور گونگا بھی ہوگا !" روایت میں یہ بھی ہے کہ گانے گانے والوں کو اسی علامت سے پہچاناجائے گا!
آنحضرتﷺ کایہ ارشاد بھی ہے کہ
 (قال) من اِستمع اِلی اللھوِیذاب فِی اذنِہ الانک  (تجارت،مستدرک الوسائل، باب) "
 جو شخص گانا باجا غور سے سنے گا اس کے کان میں پگھلا ہو ا سیسہ ڈالاجائے گا!"
رحمتِ خداسے محرومی
قطب راوندی نے پیغمبرِ اکرمﷺ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ " گانا گانے والا شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن پر قیامت کے دن خدا نظرِ رحمت نہیں ڈالے گا!"
گلوکار سے محبت
عن ابِی جعفر علیہ السلام قال امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: من اصغی اِلی ناطِق فقدعبدہ "جو شخص کسی بولنے والے کا احترام کرے گا وہ گویا اس کا بندہ ہوجائے گا!" فاِن کان الناطِق یودِی عنِ اللہِ عزوجل فقد عبد اللہ واِن کان الناطق یودِی عنِ الشِیطانِ فقد عبد الشیطان  (فروغِ کافی ،گانے کا باب) " اگر بولنے والا شخص خدا کی طرف لے جاتا ہو تو احترام کرنے والا شخص خدا کی عبادت کرتا ہے اور اگر وہ شیطان کی طرف لے جاتا ہو تو وہ شیطان کی عبادت کر بیٹھتا ہے!"
چھٹے امام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ : جو شخص بھی گانا گانے کی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دو شیطان دونوں کندھو ں پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس وقت اپنے پیر کی ایڑی اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا گانا ختم نہیں ہوجاتا!" پس جب شیطان گلوکار کو لات مارتے ہوں تو ایساشخص محبت کئے جانے کے کہاں لائق ہے!
بہشت میں سریلی آوازیں
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے  (عن ابِی الحسنِ قال) من نزہ نفسہ عنِ الغِنآِ فاِن فِی الجنتِ شجریمراللہ الرِیاح ان تحرِکھا فیسمع لھا صوتا لم یسمع بِمِثلِہ ومن لم یتنزہ عنہ لم یسمعہ (کتاب " کافی") یعنی " جو شخص خود کو گانے سے بچائے رکھے گا تو خدا سے جنت میں ایک درخت میں سے آواز سنوائے گا کہ ایسی اچھی آواز کسی نے نہیں سنی ہوگی ! اور جو شخص اپنے آپ کو گانے سے نہیں بچائے گا وہ ایسی آواز نہیں سن سکے گا۔"
جنت میں خوبصورت نغمے
حضرت رسول اکرمﷺ کی یہ حدیث تفسیر مجمع البیان میں موجود ہے کہ : "جوشخص بہت گانے سنتا رہا ہو وہ روحانیوں کی آواز قیامت میں نہیں سننے گا"پوچھا گیا۔  یا رسول اللہ ! یہ روحانی کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جنت میں خوش الحانی سے گانے والے۔"
اور حضرت علیؑ کا یہ قول نہج البلاغہ میں موجود ہے داود سیِد قرآِ اھلِ الجنِ یعنی " حضرت داود علیہ السلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔"
جنت میں لوگ حضرت داد علیہ السلام سے ایسے عمدہ نغمے سنیں گے کہ دنیا میں ان کی مثال نہیں ملتی ہوگی البتہ ایسے ہی لوگ سن سکیں گے جو دنیا میں گانا سننے سے پرہیز کرتے ہوں۔
سخت تنبیہ
پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں: " ظھر فِی  امتِی الخسف والقذف" میری امت میں ایسے واقعات ظاہر ہوں گے کہ زمین دھنس جایا کرے گی اور آسمان سے پتھر برسا کریں گے!" قالو متی ذلِک؟ "لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کب ہوگا؟" قال اِذاظھرتِ المعازِف والِقینات وشرِبتِ الخمور آنحضرتﷺ نے فرمایا: "جب گانے باجے کے آلات عام ہوں گے ، گانا گانے والی لڑکیاں کثرت سے ہوں گی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال پھیل جائے گا! "
واللہِ لیبِیتن اناس مِن امتِی علی اشرو بطرو لعِب فیصبِحون قرِد و خنازِیر لِاستِحلالِھِم الحرام واتخاذِھِم القیناتِ وشربِھِم الخمور واکلِھِم الرِبا و لبسِھِم الحرِیر  (وسائل الشیعہ کتاب التجارہگانے کا باب)
"خدا کی قسم میری امت کے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو رات کو مستی اور عیاشی کے عالم میں گذاریں گے اور صبح درحقیقت بندروں اور سوروں کی مانند ہوجائینگے! یہ اس سبب ہوگا کہ وہ حرام کو حلال سمجھتے ہونگے۔ گانا گانے والی لڑکیوں میں مگن ہونگے نشہ آور چیزیں استعمال کریں گے سود کا مال کھائینگے اور ریشمی کپڑے پہنتے ہوں گے!"
گانا اور زنا
گانا زنا کا سبب بن جاتا ہے، رسولِ خداﷺ کا ارشاد ہے  (عنِ النبِیِ) الغِنآ رقی الزِنا  (مستدرک الوسائل کتاب تجارت) "گانا زنا کی سیڑھی ہے!"
گانے سے آدمی کی شہوت ابھرآتی ہے اور اس کے برے نتائج سامنے آجاتے ہیں، نہ صرف گانے سے شہوت ابھرتی ہے بلکہ گانا سننے سے بھی یہی حال ہوتا ہے، آدمی خدا سے غافل ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی بدکاری کے لئے آمادہ نظر آتا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے والملاھِی التِی تصد عن ذِکرِاللہِ کالغِنآِ وضربِ الاوتارِیعنی " اور لہو ولعب کے وہ تمام کام گناہِ کبیرہ ہیں جو خداوندِ تعالے کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں مثلا گانا باجا اور موسیقی کے آلات کا استعمال!"
جی ہاں موسیقی نہ صرف شرم و حیا اور غیرت کو ختم کردیتی ہے بلکہ محبت انسانیت اور رحم جیسے جذبات کو بھی فنا کر دیتی ہے، الغرض معاشرے کو جہنم کا نمونہ بنا دیتی ہے!
گانے کے حرمت
شیعہ مجتہدین کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گانا حرام ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ گانے کی حرمت پر اجماع موجود ہے، کتاب "مستند" کے مولف فرماتے ہیں کہ گانا باجا کو حرام ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے، یعنی اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ گانا باجا حرام نہیں ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا! کتاب "ایضاح" کے مولف فرماتے ہیں کہ گانے باجے کو حرام قرار دینے کے سلسلے میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں۔
البتہ گانے کے معنی میں اور اس کی تعریف تھوڑا بہت اختلاف موجود ہے، اکثر مجتہدین یہی کہتے ہیں کہ ہر وہ آواز جو عیش و طرب کی خواہش اور جنسی قوت کو ابھار سکتی ہو وہ گانا باجاہے اور حرام ہے۔
قرآنِ مجید گانے کے انداز میں
جس طرح کہ پہلے بیان ہوا، گانے کے طرز پر قرآنِ مجید پڑھنا یا نوحہ مرثیہ پڑھنا یا اذان دینا بھی حرام ہے، اِس سلسلے میں نظم اور نثر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ مقدس چیزوں کو گانے کے طرز پرپڑھنے کا گناہ دگناہے، ایک تو گانے کی آواز نکالنے کا گناہ اور دوسرے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کا گناہ۔
اچھی آواز میں قرآن پڑھنا
البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے، خوش الحانی سے گلے میں آواز گھمائے بغیر اگر تلاوتِ قرآن کی جائے یا نوحہ مرثیہ پڑھ جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ اچھی بات ہے، رسولِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے
 (قال رسول اللہ) اِقروالقرآن بالحانِ العربِ واصواتِھا "قرآن عرب لوگوں کے لہجے میں خوش الحانی سے پڑھاکرو۔"
واِیاکم ولحون اھلِ الفِسقِ واھلِ الکبائِرِفاِنہ سیجی اقوام یرجِعون القرآن ترجِیع الغِنآوالنوحِ والرھبانِیِلایجوز ترا قِیھِم قلوبھم مقلو ب وقلو ب من یعجِبہ شا نھم  (وسائل الشیعہ، کتاب صلو)"
تم کو فاسقوں اور گناہِ کبیرہ کرنے والوں سے پرہیز کرنا چاہیے، یقینا ایسے لوگ دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو گا کر رلانے والوں اور راہبوں کے طرز پر پڑھا کریں گے، ایسے لوگوں کے پاس جانا یا ان کو اپنے پاس بلانا جائز نہیں ہوگا، ایسے لوگوں کے دل الٹے ہوئے ہوں گے اور جو لوگ ایسوں سے متاثر ہوں گے ان کے دِل بھی ایسے ہی الٹے اور کج ہوں گے!"
خوبصورت آواز اور گانا
قیامت قریب ہونے کی علامتیں ذکر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں :ایسے لوگ بھی دنیا میں آئیں گے جو قرآن کو دنیاوی مقاصد کے لئے حفظ کریں گے اورگانے کے طرز پر تلاوت کریں گے۔"
البتہ ایسی احادیث بھی ملتی ہیں، جیسا کہ ذکر ہوا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھی آواز میں قرآن کی تلاوت مستحب ہے، بس اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ گانے کے طرز پر نہ ہو۔
لڑکی کی شادی میں گانا بجانا
بعض مجتہدین نے تین شرطوں کے ساتھ شادی کے موقع پر عورتوں کو گانے کی اجازت دی ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ گاناسننے والوں میں کوئی مرد موجود نہ ہو، یہاں تک کہ محرم مرد بھی موجودنہ ہوں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ گانے فحش نہ ہوں اور جھوٹی باتوں پر مشتمل نہ ہوں۔
تیسری شرط یہ ہے کہ گانے کے ساتھ ڈھول تاشہ اور دیگر بجانے کے آلات استعمال نہ ہوں۔
بعض علماء نے دف (یعنی ایسا ڈھول جس کے ایک ہی طرف کھال ہو) شادی میں بجانے کی اجازت دی ہے، شہیدِ ثانی اورمحققِ ثانی فرماتے ہیں کہ دف شادی میں اس صورت میں بجانا جائز ہے جب کہ اس کے اطراف میں جھنجھنے نہ لگے ہوں۔
لیکن احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں، شیخ انصاریؒ "مکاسب" میں شہید ِثانی کتاب"دروس" میں اورسید مرتضی کتاب" وسیلہ " میں اس موضوع پر یہی فرماتے ہیں : الاِحتِیاط طرِ یق النجاِ یعنی احتیاط ہی نجات کا راستہ ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.