uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

سورہ حمد... ایک حیرت انگیز نکتہ

سورہ حمد
ایک حیرت انگیز نکتہ
جب اہل بیتؑ کے پیروکار خان خدا کی زیارت کے لئے حجاز مقدس میں شرف حضور پاتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کی خاطر اپنے آئمہ طاہرینؑ کے حکم کے مطابق  اہل سنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں اور مسجد الحرام اور مسجد النبیﷺ میں نماز کی فضیلت سے مستفیض ہوتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو ان کے ذہنون کو مشغول کرتی ہے یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں، ان کے محترم آئمہ جماعت سورہ حمد کی ابتدا میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ مطلقاً نہیں پڑھتے یا پھر آہستہ اور اخفات کی صورت میں پڑھتے ہیں، حتی مغرب و عشا کی مانند جہریہ نمازوں میں بھی یہی صورت حال رہتی ہے۔
جبکہ شیعہ زائرین مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآن کے تمام موجودہ نسخوں میں  جو غالباً مکہ میں چھپتے ہیں، سورہ حمد کی آیات کی تعداد سات بتائی گئی ہے جن میں ایک آیت ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ہے (اور یہ سب کے لئے حیرت کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کی اہم ترین آیت ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کیوں اس مسئلے کا شکار ہوئی ہے)۔
مگر یہ لوگ جب ہم سے پوچھتے ہیں اور ہم انہیں ’’بسم اللہ ...‘‘ کے سلسلے میں اہل سنت کی روایات اور آرا کے درمیان اختلافات و تضادات کی داستان سناتے ہیں، تو ان کی حیرت دوچند ہوجاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ابتدا میں اس مسئلے پر موجودہ فتاویٰ کی طرف رجوع کریں اور پھر اس بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کا جائزہ پیش کریں۔
فقہا کے تین گروہ
مجموعی طور پر اہل سنت کے فقہا تین گروہوں میں بٹ گئے ہیں:
1۔ امام شافعی کے پیروکار
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ سورہ حمد کی ابتدا میں "بسم اللہ ..." کی تلاوت ضروری ہے اور جہریہ نمازوں (فجر و مغرب و عشا) میں جہر کی صورت میں ہونی چاہئے اور اخفائیہ نمازوں (ظہر و عصر) میں آہستہ سے (اخفات کے ساتھ) ہونی چاہئے، یہ امام محمد بن ادریس شافعی اور ان کے پیروکاروں کی روش ہے۔
2۔ امام احمد بن حنبل کے پیروکار
دوسرا گروہ ان لوگوں کا کہنا ہے جن کا کہنا ہے کہ "بسم اللہ ..." کی تلاوت ضرور ہونی چاہئے لیکن تمام نمازوں میں اخفات کے ساتھ ہونی چاہئے، یہ لوگ امام احمد بن حنبل اور ان کے پیروکار ہیں۔
3۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو "بسم اللہ ..." کی تلاوت کو مطلقا منع کردیتے ہیں، یہ لوگ امام مالک بن انس اور ان کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور امام ابو حنیفہ کی رائے بھی امام مالک سے قریب تر ہے۔
المغنی میں اہل سنت کے مشہور فقیہ کی عبارت کچھ یوں ہے:
سورہ حمد اور قرآن کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قرائت اکثر صاحبان علم کے نزدیک جائز ہے اور مالک اور اوزاعی (جو اہل سنت کے فقہا ہیں) نے کہا ہے کہ سورہ حمد کی ابتدا میں بسم اللہ نہ بڑھی جائے (بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں) احمد بن حنبل سے منقولہ تمام روایات میں بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھنا مسنون نہیں ہے، (یعنی سنت سے ثابت نہیں ہے) عطا، طاس، مجاہد اور سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ بسم اللہ جہر کے ساتھ پڑھی جائے اور شافعی کی روش یہی ہے۔ (۱)
اس عبارت میں ان کے تینوں کے اقوال بیان ہوئے ہیں۔
اور تفسیر "المنیر" میں وہبہ الزحیلی سے مروی ہے:
مالکیوں اور حنفیوں کا کہنا ہے کہ بسم اللہ ... سورہ فاتحہ اور قرآن کی دوسری سورتوں کا جز نہیں ہے سوائے سورہ نمل کے؛ (جہاں بسم اللہ ۔۔۔ سورۃ کے ضمن میں ایک آیت کی صورت میں آئی ہے) ... مگر یہ کہ حنفیوں کا کہنا ہے کہ فرادی نماز پڑھنے والا شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نماز کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ اخفات کی صورت میں پڑھتا ہے ... لیکن شافعی اور احمد بن حنبل کے پیروکار اس بات کے قائل ہیں کہ بسم اللہ... سورہ فاتحہ کی آیت میں سے ایک آیت ہے اور واجب ہے کہ نماز میں پڑھی جائے، فرق صرف یہ ہے کہ حنبلی، حنفیوں کی مانند اس بات کے قائل ہیں کہ بسم اللہ آہستگی سے پڑھی جائے بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے، لیکن شافعیوں کی رائے یہ ہے کہ اخفائی نمازوں (ظہر و عصر) میں آہستگی سے پڑھی جائے اور جہریہ نمازوں (فجر و مغرب و عشا) میں جہر کے ساتھ پڑھ لینی چاہئے۔(۲)
چنانچہ شافعی کے پیروکاروں کا قول، دوسرے اقوال کی نسبت، شیعہ فقہا کے قول کے قریب تر ہے، فرق یہ ہے کہ شیعہ فقہا کے نزدیک، تمام نمازوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ اور اونچی آواز سے پڑھنا، مستحب ہے اور تمام شیعہ فقہا کی متفقہ رائے کے مطابق سورہ حمد میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب ہے اور دیگر سورتوں میں مشہور و معروف قول بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جزئیت پر دلالت کرتا ہے۔
حقیقتاً ایک بے غرض اور غیر جانبدار محقق، حیرت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ 23 سال کے عرصے میں اکثر نمازیں با جماعت تمام مسلمانوں کے ساتھ ادا کی ہیں اور سب نے آپﷺ کی پوری نماز کو اپنے کانوں سے سنی ہے، مگر بہت کم عرصہ بعد اتنے خوفناک اختلافات معرض وجود میں آئے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھنا منع ہے، بعض کا کہنا ہے کہ آہستہ پڑھنی چاہئے، کچھ کہتے ہیں جہریہ نمازوں میں جہر کے ساتھ پڑھنی چاہئے!!۔
کیا یہ عجیب اور ناقابل تصور اختلاف اس بات کی علامت نہیں ہے کہ یہ ایک معمولی مسئلہ بلکہ اس منصوبے کے پیچھے ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے عزائم کارفرما رہے ہیں جنہوں نے متضاد و متناقض حدیثیں وضع کر کے رسول اللہ سے منسوب کی ہیں۔
بخاری نے اپنی کتاب(صحیح) میں ایک حدیث نقل کی ہے جو بعض رازوں کو برملا کرسکتی ہے: مطرِف نے "عمران بن حصین" سے روایت کی ہے جب اس (عمران) نے بصرہ میں امیرالمومنینؑ کے ساتھ نماز پڑھی تو کہنے لگا:
اس مرد (علیؑ) نے ہمارے لئے اس نماز کی یاد تازہ کردی جو ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (۳)
 جی ہاں! نظر تو یوں آتا ہے کہ انھوں نے تمام اعمال حتی نماز تک کو بدل ڈالا تھا!!۔
شافعی اپنی مشہور کتاب "الم" میں وہب بن کیسان سے نقل کرتے ہیں:
رسول اللہﷺ کی تمام سنتیں تبدیل کی گئیں حتی نماز تک بھی تبدیل کی گئی۔(۴)
احادیث نبویﷺ جو بسم اللہ کو جہریہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں
اہل سنت کی مشہور کتب میں اس مسئلے پر دو بالکل مختلف قسم کی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور یہی اختلاف ان کے فتاوی میں اختلاف کا سبب بن چکا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ کبھی ایک ہی راوی نے کئی متضاد روایات نقل کی ہیں، جن کی مثالیں آپ اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں گے۔
قسم الاول:
پہلی قسم کی روایات ان روایات پر مشتمل ہیں جو نہ صرف "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو سورہ فاتحہ کا جز سمجھتی ہیں بلکہ ان کی روشنی میں نماز میں بسم اللہ کا جہر کے ساتھ پڑھنا مستحب (یا لازم) ہے، ہم اس قسم کی روایات میں سے پانچ حدیثیں پانچ مختلف راویوں سے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث
ایک حدیث امیرالمومنین علیہ السلام سے، جن کی شان و مرتبت کی بلندی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جو سفر و حضر اور خلوت و جلوت میں رسول خداﷺ کے ہمراہ تھے۔
علی بن عمر دارقطنی نے اپنی کتاب "السنن" میں امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"ان رسول اللہ یجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم فی السورتین جمیعا"۔ (۵)
رسول اللہﷺ (نماز کی حالت میں) دونوں سورتوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ (بآواز بلند) پڑھا کرتے تھے۔
2۔ انس بن مالک کی حدیث
مستدرک الصحیحین میں حاکم نیسابوری کی روایت کے مطابق، انس بن مالک  جو رسول اللہﷺ کے خادم خاص تھے اور نوجوانی کے ایام سے ہی آپﷺ کی خدمت کا شرف حاصل کئے ہوئے تھے  کہتے ہیں کہ:
میں نے رسول اللہﷺ اور ابوبکر، عمر، عثمان اور علیؑ کی امامت میں نماز ادا کی ہے اور یہ سب بسم اللہ الرحمن الرحیم جہر کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔(۶)
3۔ ام المومنین عائشہ کی حدیث
فطری سی بات ہے کہ ام المومنین عائشہ شب و روز رسول خداﷺ کے ساتھ تھیں، (سیوطی بحوالہ) دارقطنی کی روایت کے مطابق عائشہ کہتی ہیں:
رسول اللہﷺ نماز میں بسم الرحمن الرحیم کو با آواز بلند تلاوت فرمایا کرتے تھے۔(۷)
4۔ ابو ہریرہ کی حدیث
ابوہریرہ اہل سنت برادران کے مشہور راوی ہیں اور انھوں نے صحاح وغیرہ میں لاتعداد روایات ابوہریرہ سے نقل کی ہیں۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ:
رسول اللہﷺ سے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بآواز بلند پڑھا فرمایا کرتے تھے۔
یہ حدیث السنن الکبری (10)، مستدرک الصحیحین (11) اور سنن دارقطنی (12) میں منقول ہے۔
5۔ نعمان بن بشیر کی حدیث
ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ جبرائیل امین (ع) نے بھی رسول اللہﷺ کو نماز کی تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قرائت جہر کے ساتھ کی تھی۔
دارقطنی کی روایت کے مطابق نعمان بن بشیر کہتے ہیں:
جبرائیل نے کعبہ کے قریب میری امامت کی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ پڑھا۔(۸)
اور اس طرح کی بہت سی دوسری روایات (۹)
دلچسپ امر یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض مشہور علماء جنہوں نے بسم اللہ کی جہریہ قرائت کے حوالے سے وارد ہونے والی روایات نقل کی ہیں، ان احادیث کے ذیل میں  تکید کرتے ہیں کہ ان احادیث کے راوی تمام کے تمام ثقہ اور قابل اعتماد افراد ہیں، جیسا کہ حاکم نے مستدرک الصحیحین میں تکید کی ہے۔
یہاں اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ "بسم اللہ" اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و حدیث کے منابع میں سورہ حمد کا جز قرار پائی ہے اور اس سلسلے میں روایات تقریبا متواتر ہیں اور کثیر روایات میں "بسم اللہ" کی جہریہ قرائت پر زور دیا گیا ہے۔
مزید اطلاع کے لئے کتاب "وسائل الشیعہ" کے ابواب نماز  "باب 11، 12، 21 اور 22"  ملاحظہ ہوں۔ دسیوں روایتیں اس سلسلے میں ائم اہل بیت علیہم السلام "الکافی، عیون اخبارالرضا اور مستدرک الوسائل" جیسے مصادر حدیث (میں "نماز میں قرائت قرآن" سے متعلق ابواب) کے ضمن میں نقل ہوئی ہیں۔
کیا  حدیث ثقلین کے پیش نظر، جو فریقین نے نقل کی ہے اور رسول خداﷺ نے اس حدیث کے توسط سے ہمیں گمراہی سے بچنے کے لئے قرآن و اہل بیتؑ کا دامن تھامنے کا حکم دیا ہے  اس طرح کے اختلاف انگیز مسئلے میں ہمیں مذہب اہل بیتؑ کا دامن نہیں تھامنا چاہئے اور اس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے؟ (۱۵)
قسم الثانی
یہ وہ روایات ہیں جو یا تو "بسم اللہ" کو سورہ حمد کا جز ہی نہیں سمجھتیں، یا "بسم اللہ" کو بآواز بلند اور بالجہر پڑھنے سے منع کرتی ہیں:
1۔ قتادہ کی روایت
صحیح مسلم میں قتادہ سے مروی ہے کہ انس نے کہا:
میں نے رسول اللہ (ص)، ابوبکر، عمر اور عثمان کے ساتھ نماز پڑھی مگر کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا!!۔ قابل غور ہے کہ اس حدیث میں انس نے علی علیہ السلام کا نام نہیں لیا ہے۔(۱۰)
حقیقتا باعث حیرت ہے کہ انس بن مالک جو ایک ہی فرد واحد ہیں جو ایک روایت میں پوری صراحت سے  کہتے ہیں "میں نے رسول اللہ (ص)، خلفائے ثلاثہ اور علی علیہ السلام کے ہمراہ (ان کی امامت میں) نماز پڑھی، سب کے سب "بسم اللہ ..." کو بآواز بلند (جہر کے ساتھ) پڑھتے تھے"، مگر دوسری جگہ کہتے ہیں کہ:
 "میں نے رسول اللہ (ص) اور خلفائے ثلاثہ کی امامت میں نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو بسم اللہ ... پڑھتے ہوئے ہی نہیں سنا! جہر و اخفات کی تو بات ہی الگ ہے۔
کیا ہر صاحب عقل شخص یہاں یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہے کہ پہلی حدیث کو بے اثر کرنے کے لئے  ان وجوہات کی بنا پر جن پر روشنی ڈالی جائے گی  جاعلین حدیث سرگرم ہوئے اور دوسری حدیث وضع کرکے انس ہی سے منسوب کردی؟؛ اور چونکہ "بسم اللہ ..." کو جہر کے ساتھ پڑھنے کا عقیدہ علی علیہ السلام اور آپ (ع) کے پیروکاروں کا تھا، لہذا حدیث جعل کرنے والوں نے رسوائی سے بچنے کی خاطر علی علیہ السلام کا نام ذکر نہیں کیا؟۔
2۔ عبداللہ بن مغفل کی روایت
بیہقی "سنن الکبری" میں نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل نے کہا:
میرے والد نے مجھے (نماز میں) بسم اللہ پڑھتے ہوئے سنا، تو کہنے لگا: بیٹا! کیا تم بدعت گذاری کررہے ہو؟ میں نے رسول اللہﷺ اور ابوبکر، عمر اور عثمان کے ساتھ نمازیں ادا کی ہیں مگر میں نے کسی کو بھی بسم اللہ ... جہر کے ساتھ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ (۱۱)
پھر یہاں بھی علی علیہ السلام کی نماز کا ذکر موجود نہیں ہے۔
3۔ ابن عباس کی روایت
طبرانی کی کتاب "المعجم الوسیط" میں منقول ہے کہ ابن عباس نے کہا:
جب رسول اللہﷺ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیتے، مشرکین مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ محمدﷺ یمامہ کے "الہ" (معبود) کو یاد کررہے ہیں  اس وقت سرزمین یمامہ میں مسیلمہ کو رحمن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بآواز بلند نہ پڑھا جائے!۔ (۱۲)
اس حدیث کا جعلی پن بالکل واضح ہے کیونکہ:
اولا: لفظ "رحمن" قرآن مجید میں صرف "بسم اللہ ..." کے لئے مختص نہیں بلکہ دیگر آیات میں چھپن مرتبہ آیا ہے جبکہ صرف سورہ مرتبہ میں سولہ مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ چنانچہ (اگر ایسا ہے تو) قرآن کی دوسری سورتوں کی تلاوت بھی نہیں کرنی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ "مشرکین مسلمانوں کا مذاق اڑائیں!"۔
ثانیا: مشرکین قرآن کی ساری آیت کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ قرآن کی متعدد آیات منجملہ سورہ نسا کی آیت 140 میں ارشاد ربانی ہے:
جب تم سنو آیات الہی کو کہ ان کا انکار ہو رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو ۔ (۱۳)
اور مشرکین نماز کی اذان کا بھی مذاق اڑاتے تھے جیسا کہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہوا ہے:
اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔(۱۴)
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہﷺ نے اذان ترک کرنے کا حکم دیا یا پھر اذان آہستہ دینے کا امر فرمایا تا کہ مشرکین مذاق نہ بنائیں؟
اصولی طور پر مشرکین رسول اللہﷺ کا مذاق اڑایا کرتے تھے:
اور جب کافر لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔(۱۵)
تو کیا مشرکین کے مذاق اڑانے کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہئے تھا؟۔
علاوہ ازیں خداوند متعال نے خود ہی رسول اکرمﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہم ہی ان تمسخر اڑانے والوں کے مقابلے میں آپ کی نصرت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ (یا ہم نے ان کا شر آپ سے برطرف کردیا)۔ (۱۶)
ثالثا: مسیلمہ کذاب حیثیت ہرگز اتنی بڑی نہ تھی کہ اس کو اتنی توجہ دی جائے، اور وہ اس سے کہیں زیادہ چھوٹا اور غیر اہم تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف اس وجہ سے قرانی آیات کو خفیہ رکھیں یا آہستہ پڑھیں کہ اس شخص کا نام رحمن تھا!، اور پھر مسیلمہ کا دعوی سنہ 10 ہجری میں سامنے آیا؛ اور یہ اسلام کی قدرت کاملہ اور مکمل قوت و تسلط کا زمانہ تھا۔(۱۷)
ان روشن حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کو جعل کرنے والے افراد مہارت اور آگہی سے مکمل طور پر عاری تھے (اور انھون نے یہ حدیث سوچے سمجھے بغیر ہی وضع کی ہے)۔
4۔ ابن عباس کی روایت
ابن ابی شیبہ اپنی کتاب "المصنف" میں ایک حدیث کے ضمن میں روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا:
صحرا نشین عربوں کی قرآئت (اور عادت) یہ تھی کہ وہ بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (۱۸)
حالانکہ درالمنثور میں منقولہ حدیث میں ہے کہ علی بن زید بن جدعان نے کہا:
عبادلہ (عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر) تینوں بسم اللہ ... جہر کے ساتھ پڑھتے تھے۔ (۱۹)
اور ان سب سے اہم اور سب سے بالاتر علی علیہ السلام کی سیرت و روش ہے جو بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا علی علیہ السلام صحرا نشین عربوں میں شمار ہوتے ہیں؟! کیا یہ ساری متضاد روایات اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ مسئلہ، ایک سیاسی مسئلہ تھا؟
جی ہاں! حقیقت یہ ہے کہ علی علیہ السلام بسم اللہ ... کی قرائت میں "جہر" کا لحاظ رکھتے تھے اور امام علی بن ابی طالبؑ کی شہادت اور امام حسن مجتبیٰؑ کی قلیل المدت خلافت کے بعد، جب معاویہ بن ابی سفیان اقتدار پر قابض ہوا تو اس کا اصرار تھا کہ علیؑ کے تمام آثار کو صفح ہستی سے مٹا دے، کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ مسلمانوں میں علی علیہ السلام کا فکری، روحانی اور معنوی اثر و نفوذ اس کی سلطنت کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔
اس تاریخی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت وہ حدیث ہے جس کو حاکم نے مستدرک علی الصحیحین میں نقل کیا اور اس کو موثق و معتبر قرار دیا۔
حاکم کی روایت کے مطابق (رسول اللہ (ص) کے خادم خاص) انس بن مالک نے کہا:
 معاویہ مدینہ آیا اور ایک جہری نماز (نماز فجر یا مغرب یا عشا) میں سورہ حمد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لی۔ مگر دوسری سورت بسم اللہ ... پڑھنے سے اجتناب کیا۔ جب اس نماز کا سلام دیا، مہاجرین اور انصار کے ایک گروہ نے (جنہوں نے غالبا جان کے خطرے کی بنا پر نماز میں شرکت کی تھی) ہر سمت سے صدائے اعتراض اٹھائی اور کہنے لگے:
کیا تو نے نماز میں سے کوئی چیز چرائی یا پھر بھول گئے۔
معاویہ نے مہاجرین و انصار کے احتجاج کی وجہ سے ، دوسری نماز میں سورہ حمد کی ابتدا میں بسم اللہ ... کی تلاوت کی اور دوسری سورت میں بھی بسم اللہ ...  پڑھ لی۔(۲۰)
گویا معاویہ اپنے اس عمل سے مہاجرین و انصار کو آزمانا چاہتا تھا کہ یہ لوگ بسم اللہ ... اور "جہر ببسم اللہ" کے مقابلے کتنی حد تک حساس ہیں تاہم اس نے شام اور دیگر علاقوں میں اپنا کام جاری رکھا۔
دو جلدوں کے درمیان (ما بین الدفتین) قرآن ہے
یقینا جو کچھ قرآن کی دو جلدوں کے درمیان ہے، قرآن کا جز ہے (اور قرآن کے سوا کچھ نہیں ہے) اور یہ کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بسم اللہ ... قرآن کی سورتوں کا جز نہیں ہے بلکہ سورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لئے ہے:
اولا: یہ بات سورہ حمد پر صادق نہیں آتی اور جیسا کہ موجودہ قرآنوں میں شمارہ گذاری ہوئی ہے، بسم اللہ ... سورہ حمد کی ایک آیت ہے۔
ثانیا: سورہ برائت کو جدا کرنے کے لئے کیوں بسم اللہ ... سے استفادہ نہیں ہوا ہے؟ اور اگر کہتا جائے کہ بسم اللہ ... سورہ برائت (سورہ توبہ) کی ابتدا میں اس لئے درج نہیں ہوئی ہے کہ یہ پچھلی سورت (سورہ انفال) سے مرتبط ہے، ہرگز قابل قبول نہ ہوگآ، کیونکہ اتفاق سے سورہ انفال کی آخری آیات اور سورہ توبہ کی پہلی آیات کے مفاہیم کے درمیان کسی قسم کا کوئی ربط موجود نہیں ہے، حالانکہ (دوسری جانب سے) بہت ساری سورتیں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں مگر پھر بھی بسم اللہ ... نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے۔
حقا کہ کہنا چاہئے کہ بسم اللہ ... ہر سورت کا جز ہے  جیسا کہ ظاہر قرآن ایسا ہی ہے  اور اگر سورہ توبہ میں بسم اللہ ... کا ذکر نہیں آیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس سورت کا آغاز عہدشکن دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ سے ہوتا ہے اور اعلان جنگ  رحمت عامہ اور رحمت خاصہ پر دلالت کرنے والے اسا الہی یعنی  "رحمن و رحیم" سے تناسب نہیں رکھتا۔
بحث کا خلاصہ
1۔ (ان کثیر روایات کے مطابق جو حضور نبی اکرمﷺ کے مطابق، جو حضور نبی اکرمﷺ کے نہایت قریبی افراد کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں) آپﷺ سورہ حمد سمیت قرآن کی تمام سورتوں کے آغاز میں پڑھ لیا کرتے تھے اور متعدد روایات کے مطابق آپﷺ بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے۔
2۔ جو روایات مذکورہ بالا روایات کے برعکس، بیان کرتی ہیں کہ بسم اللہ ... (قرآن یا سورہ فاتحہ کا) جز ہی نہیں ہے یا پھر یہ کہ رسول اللہﷺ بسم اللہ ... اخفات کے ساتھ پڑھتے تھے، وہ مشکوک ہی نہیں بلکہ ان میں موجودہ نشانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب جعلی اور موضوعہ روایات ہیں اور ان کے پیچھے بنو امیہ کی مشکوک اور پراسرار پالیسیاں، کارفرما رہی ہیں؛ کیونکہ یہ زبانزدِ عام و خاص تھی کہ علیہ السلام بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بنوامیہ ان تمام خصال و اعمال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے جو علی علیہ السلام کا شعار سمجھے جاتے تھے، گوکہ انھوں نے یہ اعمال و خصال پیغمبر اکرمﷺ سے اخذ کئے ہوں!۔(۲۱)
یہ مسئلہ مدینہ میں معاویہ پر صحاب رسولﷺ کے شدید اعتراضات و انتقاد سمیت، بعض دیگر شواہد سے برملا ہوا، جو پچھلے صفحات میں مذکور ہیں۔
3۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام عموماً علیؑ کا اتباع کرتے ہوئے جنہوں نے سالہا سال رسول اکرمﷺ حضور پر نور میں بسم اللہ ... کو باآواز بلند پڑھنے کا درس حاصل کیا تھا  اس مسئلے میں متفق القول ہیں، یہاں تک کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
آل محمد (ص) بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ پڑھنے پر متفق ہیں۔ (۲۲)
اور اگر طے ہو کہ کم از کم اس قسم کے مسائل میں حدیث ثقلین پر عمل کیا جائے اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات مدنظر رکھی جائے، تمام فقہائے اہل سنت کو امام شافعی کی طرح  کم از کم  جہریہ نمازوں میں  "جہر ببسم اللہ ..." کو واجب قرار دینا چاہئے۔
4۔ حسن ختام کے طور پر اس بحث کو تفسیر کبیر میں مندرج فخر رازی کے دو اقوال پر مکمل کرلیتے ہیں؛ فخر رازی کہتے ہیں کہ:
علی علیہ السلام بسم اللہ ... کے جہر پر اصرار کرتے تھے، جب حکومت بنو امیہ کے ہاتھوں میں آگئی تو انھوں نے جہر سے منع کرنے میں مبالغہ و اصرار کیا تا کہ علیؑ کے آثار اور نشانیوں کو مٹا سکیں۔ (۲۳)
اہل سنت کے اس عظیم عالم کی مذکورہ بالا شہادت سے، بسم اللہ کے اخفا یا اس کو حذف کرنے کے حکم کی سیاسی ماہیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
فخر رازی اسی کتاب میں ہی مشہور محدث "بیہقی" سے نقل کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر بسم اللہ کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے اور اس کے بعد کہتے ہیں:
علی بن ابی طالب علیہما السلام، بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھتے تھے اور یہ مسئلہ "تواتر کے ساتھ" ثابت ہوچکا ہے (اور ناقابل انکار ہے)، اور جو شخص اپنے دین میں علیہ السلام کی پیروی کرے وہ ہدایت پا چکا ہے اور اس حقیقت کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول ہے کہ آپ (ص) نے (رب ذوالجلال کی بارگاہ میں) عرض کیا:
بار آلہا! حق کو علیؑ کے ساتھ قرار دے اور علیؑ کی ذات کو حق کا مدار و محور (اور حق کا معیار) قرار دے، (یا حق کو اسی طرف پلٹا دے جس طرف علیؑ پلٹتے ہیں)۔ (۲۴)
حوالہ جات و توضیحات
1۔ المغنی ابن قدامہ، جلد 1، ص 521۔
2۔ المغنی ابن قدامہ، جلد 1، ص 521 .
3۔ تفسیر المنیر، جلد 1، صفحہ 46 .
4. صحیح بخار، جلد 1، صفحہ 190.
5۔ الام، محمد بن ادریس الشافعی جلد 1، ص 269۔
* ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام نے تو رسول اللہﷺ والی نماز کی یاد زندہ کرائی اور شافعی نے تصدیق کی ہے کہ رسول اللہﷺ کی تمام سنتیں حتیٰ کہ نماز تک کو تبدیل کیا گیا تھا اور علیؑ نے انہیں زندہ کیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے وصال اور علیؑ کی ظاہری حکومت کے درمیان پچیس برس حکومت کس کے پاس تھی اور رسول اللہﷺ کی سنتیں کس نے تبدیل کردیں؟ اور کیوں؟۔
۶۔ سنن دارقطن، جلد 1، صفحہ 302؛ یہی روایت سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں بھی نقل کی ہے۔
۷۔ مستدر الصحیحین، جلد 1، صفحہ 232 . (دار المعرف بیروت  لبنان میں مطبوعہ نسخے میں یہ حدیث صفحہ 334 پر مندرج ہے)
۸۔ الدر المنثور، جلد 1، صفحہ 23۔                                 ۹۔ السنن البر، جلد 2، صفحہ 47۔
۱۰۔ مستدر الصحیحین، جلد 1، صفحہ 208۔                        ۱۱۔ سنن الدارقطن، جلد 1، صفحہ 306۔
۱۲۔ سنن الدارقطن، جلد 1، صفحہ 309۔                     
*  حکم بن عمیر کی روایت:
حکم بن عمیر سے منقول ہے جو بدری تھے کہ: میں نے نبی کریمﷺ کی امامت میں نماز پڑھی پس میں نے دیکھا کہ آپ (ص) رات (مغرب و عشا) کی نمازوں میں بھی اور صبح اور جمعہ کی نمازوں میں بسم اللہ ۔۔۔ کو جہر کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔(کنزالعمال متقی ہندی جلد 8 صفحہ 118)
 عبداللہ بن عمر نے کہا ہے کہ میں نے نبیﷺ اور ابوبکر اور عمر کی امامت میں نماز پڑھی اور سب نے نماز میں بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھا۔ (میزان الاعتدال محمد بن حمد الذہبی صفحہ 334 حدیث 3976)

*  زید بن ارقم سے مروی ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا: گویا مجھے اللہ تعالی نے اپنے پاس بلایا ہے اور مجھے اس دعوت کی اجابت کرنی ہے لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: کتاب اللہ اور میری اہل بیتؑ، توجہ رکھو کہ میرے بعد تم ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہو، یہ دو ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہ ہونگے حتی کہ حوض کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔ (البدای و النہای جلد 5 ص 209 - صحیح مسلم  جلد 4، صفحہ1873 1874 ، مسند احمد  جلد 3، صفحہ14، 17، 26 و 59 ، المستدرک علی الصحیحین  جلد 3، صفحہ109 و 148 ، المصنفِ ابن ابیشیبہ  جلد 7، صفحہ 176 ، السنن الکبری نسائی  جلد 5، صفحہ 45، 51 و 130 ، مسند ابییعلی  جلد 2، صفحہ 297، 303 و 376 ، السنن الکبری بیہقی  جلد 7، صفحہ 30 و جلد 10، صفحہ 114 ، المعجم الوسط  جلد 3، صفحہ 374 و جلد 4، صفحہ 33۔ یہ حدیث ذخائر العقب، فصول المہم، الخصائص اور الصواعق المحرقہ میں بھی نقل ہوئی ہے۔ السید ہاشم البحرانی الموسوی التوبلی نے غای المرام کی جلد 1 صفحہ 21 پر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو 39 سنی منابع اور 82 شیعہ منابع سے مستند کیا ہے۔
۱۳۔ صحیح مسلم، جلد 2، باب حج من قال لا یجہر بالبسمل، صفحہ 12۔
۱۴۔ السنن البر، جلد 2، صفحہ 52۔
*  محترم مؤلف نے اس روایت کا منبع ذکر نہیں کیا ہے لیکن ہیثمی نے یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس میں دو نکتے مختلف ہیں ایک کہ "یسمی کی بجائے یتسمی" کا فعل استعمال ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ یمامہ مین "مسیلمہ کو "رحمن و رحیم" نام دیا جاتا تھا۔ مجمع الزوائد علی بن ابی بر الہیثمی جلد 2 صفحہ 108؛ بحوالہ طبرانی و بروایت ابن عباس۔ یادرہے کہ مسیلمہ کذاب کا کہنا تھا کہ گویا وہ یمامہ مین رہنے والے بنی حنیفہ کا پیغمبر ہے اور رسول اللہ (ص) قریش کے پیغمبر ہیں۔ (بحار الانوار علامہ محمد باقر مجلسی جلد 29 صفحہ 409)۔
۱۵۔ سورہ نسا آیت 140۔                                           ۱۶۔ سورہ مائدہ آیت 58۔
۱۷۔ سورہ انبیا آیت 36۔                                            ۱۸۔ سورہ حجر آیت 95۔
*مشرکین کی قوت کا زمانہ سنہ آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے ساتھ ہی ختم ہوچکا تھا چنانچہ ان کے مذاق اور تمسخر اڑانے کا زمانہ رسول اللہﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے ساتھ ہی ختم ہوا تھا، لگتا ہے کہ یہ روایت اس لحاظ سے بے بنیاد ہے کہ سنہ 10 ہجری میں اور بڑے بڑے مشرکین نے اسلام کا اظہار کرلیا تھا یعنی یا تو وہ مسلمان ہوچکے تھے یا شرک و کفر دل میں چھپا کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔
* مصنف ابن اب شیبہ، جلد 2، صفحہ 89۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے جاہلیت کے دور میں مشرکین بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے "باسم اللہم" پڑھا کرتے تھے چنانچہ بادیہ نشینوں کے درمیان بھی یہی جملہ استعمال ہوتا تھا اور اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اسلام رسول اللہﷺ کی برکت سے اور مکہ اور مدینہ والوں کے توسط سے بادیہ نشینوں تک بھی پہنچا اور نماز و تلاوت کے احکام بھی اسی مکہ اور مدینہ سے ہی ان تک پہنچے ہیں چنانچہ یہ ممکن نہیں ہے کہ بادیہ نشینوں نے خود ہی اس رسم کا آغاز کیا ہو بلکہ قطعی طور پر یہ حکم ان کو رسول اللہﷺ سے ملا ہوگا۔
۱۹۔ الدرالمنثور سیوطی جلد 1 صفحہ 21.          ۲۰۔ مستدر علی الصحیحین، جلد 1، صفحہ 233۔
* معاویہ بلاواسطہ طور پر رسول اللہﷺ کے آثار کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرسکتا تھا لیکن علیؑ کے آثار کے خلاف جنگ کا اعلان کرسکتا تھا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، یہ الگ بات ہے کہ علیؑ کے آثار رسول اللہﷺ ہی کے آثار ہیں اور یہ حقیقت تمام شیعہ و سنی منابع اور اصحاب کے اعترافات سے ثابت ہے۔
۲۱۔مستدر الوسائل، جلد 4، صفحہ 189۔       ۲۲۔ تفسیر بیر فخر راز، جلد 1، صفحہ 206۔
۲۳۔ تفسیر بیر فخر راز، وہی جلد وہی صفحہ۔ 204 و 205۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.