uRDU fONTS

اردو فانٹ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے کلک کریں

۲۱ دسمبر کا فتنہ:دنیا کا اختتام قرآن کی نظر میں


۲۱ دسمبر کا فتنہ:دنیا کا اختتام قرآن کی نظر میں
دنیا:
انسان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا کا مستقبل ہمیشہ اس کی آنکھوں سے اوجھل رہا ہے اور ہمیشہ یہ سوال اس کے ذہن میں موجود رہا ہے کہ دنیا کے خاتمے پر کیا ہوگا؟ یہ سوال بالکل دنیا کے آغاز کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کی مانند ہے جن کا جواب بے شمار فرضیات کے باوجود فراہم نہیں کیا جاسکا ہے اور دنیا کے آغاز کے بارے میں جو کچھ بھی انسان کے سامنے ہے سائنسدانوں کے فرضیات اور نظریات تک ہی محدود ہے جن کو کسی صورت میں بھی یقینی علم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
ایک فارسی شاعر کا کہنا ہے:
ما ز آغاز وز انجام جہان بی خبریم
اول و آخر این ہنہ تاب افتادہ است
ہم اس دنیا کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں
اس پرانی کتاب کا دیباچہ اور نتیجہ (گویا) حذف ہوچکا ہے
بہت سے سائنسدان  زمین کی موجودہ صورت حال اور اس کو درپیش بحرانوں کی وجہ سے فکرمند ہیں اور ایسے حقائق کے بارے میں عام طور پر تحقیق کرتے ہیں جو کسی دن حیات کے اختتام اور نیلے سیارے کی نابودی پر منتج ہوسکتے ہیں۔
عرصے سے جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب سے باقیماندہ بعض پیشن گوئیوں کی بنا پر 2012 کو دنیا کے اختتام کا سال قرار دیا جارہا ہے جو در حقیقت ایک عالمی ڈرامہ ہے کیونکہ سائنسدانوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہونے کے بارے میں کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔
یہاں ہم تاریخی اور علم شواہد نیز سنہ 2012 میں دنیا کے اختتام کے بارے میں پیش کردہ نظریات کا جائزہ لیتے ہیں:
اس میں شک نہیں ہے کہ شواہد اور قرائن اس دنیا کی نابودی کا پتہ دے رہے ہیں اور تمام الہی اور غیرالہی ادیان یا نظریات و مکاتب میں اس حوالے سے وسیع بحث ہوئی ہے۔
قرآن مجید میں بھی اس موضوع پر مفصل بات ہوئی ہے اور اس زمانے کو ہولناک اور عظیم قرار دیا گیا ہے جب یہ عالم نیست و نابود ہوگا جس میں آسمان و زمین کی بساط الٹنے اور پہاڑوں اور سمندروں کے درہم برہم ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔
زرتشتیوں (پارسیوں) کے متون میں ہے کہ:
در آسمان نشانہ گوناگون پیدا باشد (زند بہمنیسن، ص 11، ف 6 ، بند 4) آسمان میں گوناگون نشان نمایاں ہونگے۔۔۔
انجیل میں ہے کہ:
اور سورج، چاند اور ستاروں میں علامتیں نمایاں ہونگی اور اس وقت [لوگ] انسان کا بیٹا (عیسی مسیح) کو دیکھیں گے جو بادل پر سوار ہے اور قوت و جلال عظیم کے ساتھ آئے گا۔ (تاب مقدس، عہد جدید، ص 133، انجیل لوقا، ب 21 ، بند 25 و 27)۔
روایات کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرخ رنگ کے ستارے کا طلوع ہونا اور ایک شہاب ثاقب یا دمدار ستارے کا گرجانا، زمین میں خسف، دھنسنے اور نگلنے کا عمل، وہ علامتیں ہیں جو قرب ظہور کا پتہ دیتی ہیں۔
احادیث و روایات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے سال کے ماہ مبارک رمضان کے دوران دنیا میں عجیب واقعات بکثرت رونما ہونگے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوط سے لے کر اس زمانے تک بے مثل ہونگے۔
ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کا زمین سے ٹکرنا آخرالزمان کے حوالے سے منقولہ روایات میں اس قدر قوی ہے کہ ان کی بنیاد پر متعدد فلمین بن ہیں اور اس کو روئے زمین پر موجودہ حیات کا اختتام اور ایک نئے عصر کا آغاز سمجھا گیا ہے اور اس کا زمانہ 2012 قرار دیا گیا ہے!
قرآن مجید اور اسلامی روایات و احادیث میں صراحت کے ساتھ آخر الزمان میں ستاروں کے ایک دوسرے سے ٹکرنے اور سورج کے تاریک ہونے اور سیاروں کے نظام کے درہم برہم ہونے اور شدید زلزلے رونما ہونے اور آتشفشانوں کے فعال ہوجانے کو قرب قیامت کی علامتیں قرار دیا گیا ہے تا ہم زمانہ ظہور اس اس سے پہلے بھی ایک دم دار ستارے کے زمین سے ٹکرنے کی پیشنگوئیاں ہیں جس میں بہت بڑی آبادی آبادی کے مرنے کی خبر دی گئی ہے لیکن یہ اختتام عالم نہیں ہے اور پھر اس کے لئے کسی تاریخ کا تعین بھی نہیں ہوا ہے۔
آخرالزمان
ظہور امام زمانہ (عج) قریب ہونے پر بھی آسمان میں غیرمعمولی علائم ظاہر ہونے کی پیشنگوئی ہوئی جیسے: ایک سرخ رنگ کا ستارہ ظاہر ہوگا جو جنگ اور وسیع خونریزیوں کے آغاز کی علامت ہوگا؛ وقت زوال سے غروب تک سورج آسمان میں رکا رہے گا؛ سورج مغرب سے طلوع ہوگا؛ وغیرہ و غیرہ اور یہ واقعات زمین اور آب و ہوا پر اثرانداز ہونگے اور گہری تبدیلیوں کا سبب بنیں گے۔
دنیا کا آختتام قرآن کی نظر میں
قرآن مجید موجودہ عالم کے زوال اور نیستی کو عدم محض کے مترادف قرار نہیں دیتا بلکہ اس کو ایک عمل کے ایک حصے میں قرار دیتا ہے اور ایک مفہوم کے مطابق اس کے لئے کوئی انتہا اور اختتام قابل تصور نہیں ہے، وہ یوں کہ موجودہ دنیا اور عالم مادی نئے شکل و شمائل والے نئے عالم میں تبدیل ہوگا اور اس کا جوہر ذات مختلف ہوگا۔ مادی دنیا کی نئے عالم میں بدلنے کے لئے اس دنیا کے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کی ضرورت ہے جس کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:
"یوم تبدل الرض غیر الرضِ والسماوات ..."  (سورہ ابراہیم آیت 48)
جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے ... ۔
جو کچھ  قرآنی آیات  حتیٰ کہ بعض مخصوص سورتوں سے جن میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے  ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ یہ عالم ایک شکل سے دوسری شکل میں بدلتے اور نئی صورت میں ظاہر ہوتے وقت حوادث اور واقعات سے دوچار ہوگا جن کو قرآن مجید میں "اشراط الساع" سے تعبیر کیا گیا ہے: سورہ محمد (ص) آیت 26 میں ارشاد ربانی ہے:
تو کیا یہ (منکر) لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں (اشراط) آپہنچی ہیں۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ قیامت نمایاں ہونے سے قبل بعض معاشرتی تبدیلیاں، نظام فطرت کا انتشار اور آسمان و زمین کی بساط پلٹنا، قرب قیامت کی نشانیاں ہیں، روایات میں بھی معاشرتی نظامات کی تبدیلیوں اور آسمان و زمین میں بڑی تبدیلیوں کو اشراط الساعہ یا قیامت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اس زمانے میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات  جیسے آسمان میں دھواں اور گیس ظاہر ہونے، صور کے پھونکے جانے، سورج، چاند اور ستاروں کے تاریک ہوجانے، سیاروں کے پھٹ جانے، شدید زلزلے رونما ہونے اور پہاڑوں کو ٹوٹ جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
قیامت کا زمانہ واضح کیوں نہیں کیا گیا؟
قیامت کی کیفیت اور اس کے وقت کا نامعلوم ہونے سے متعدد تربیتی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اگر اس کا زمانہ معین ہو اور یہ زمانہ دور بھی ہو تو غفلت سے پر طاری ہوجائے گی اور اگر قریب ہو تو لوگ مجبور ہوکر بدیوں سے اجتناب کریں گے اور ان کی آزادی اور اختیارات سلب ہوجائیں گے۔
اس کے باوجود کہ قیامت کے وقوع کا زمانہ غیر معینہ ہے قرآن مجید کی تعبیروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی مختصر سی عمر نیز برزخ کا دور اس قدر تیز رفتاری سے گذرتا ہے کہ جب قیامت بپا ہوگی تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ پورا دور کچھ گھنٹوں سے زیادہ نہ تھا؛ ارشاد ربانی ہے:
اور وہ کہتے ہیں: یہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو ٭ فرما دیجئے کہ (اس کے وقت کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو صرف واضح ڈر سنانے والا ہوں (اگر وقت بتا دیا جائے تو ڈر ختم ہو جائے گا) ٭ پھر جب اس (دن) کو قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور (ان سے) کہا جائے گا: یہی وہ (وعدہ) ہے جس کے (جلد ظاہر کیے جانے کے) تم بہت طلب گار تھے۔ (سورہ ملک آیات 25 تا 27)
ارشاد فرماتا ہے:
یسل الناس عنِ الساعِ قل ِنما عِلمہا عِند اللہِ وما یدرِی لعل الساع تون قرِیبا۔
لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو۔
خداوند یکتا اپنے نبی عظیم الشانﷺ سے  جو علم لدنی اور علم نبوی کے مالک ہیں  کو حکم دیتا ہے کہ آپﷺ لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کے وقوع کے وقت سے آگہی نہیں رکھتے اور اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے تا کہ آج کے زمانے کی طرح ہر کوئی قیامت کے لئے وقت کا تعین نہ کرے کیونکہ اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ قیامت لوگوں سے نہاں رہے تا کہ ہر کوئی اپنے وجودی صلاحیتوں کو ظاہر کرے اور اگر قیامت کے وقت اور اس کی کیفیت کو جاننا لازمی ہوتا تو اللہ تعالی خود ہی اس کو بیان فرماتا۔
قیامت:
فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ ہوکر) کب اٹھائے جائیں گے ٭بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص ہے، مگر وہ اس سے متعلق محض شک میں ہی (مبتلا) ہیں، بلکہ وہ اس (کے علمِ قطعی) سے اندھے ہیں۔  (سورہ نمل آیات 65 و 66)۔
ہم کہہ چکے کہ خداوند متعال نے قیامت کے وقت کو بعض مصلحتوں کی بنا پر بیان نہیں کیا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پس ہے، تاہم ظہور کی علامتوں کے بارے میں ہمارے پاس ایسی روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن اس کے لئے وقت کے تعین کے سلسلے میں کوئی روایت وارد نہیں ہوئی ہے اور اگر ایسی کوئی روایت وارد ہوئی ہو تو وہ درست نہ ہوگی کیونکہ وہ روایت قرآن کی آیات سے متصادم ہوگی اور یہیں سے معلوم ہوگا کہ وہ روایت معصومؑ سے صادر نہیں ہوئی ہے اور پھر ہمارے ائم عظیم الشان نے ظہور اور بالآخر قیامت کے لئے وقت متعین کرنے سے روک رکھا ہے۔
وقت کے تعین سے ممانعت کی روایت
غیبت (امامؑ کے غائب ہونے) کے بارے میں وارد ہونے والی روایات میں ایک مکرر اور مکد مضمون توقیت (یعنی وقت ظہور کے تعین) سے ممانعت کی روایات سے عبارت ہے، یہ روایت رسول اللہﷺ سے لے کر امام زمانہ علیہ السلام تک سے وارد ہوئی ہے اور شدید اور سخت عبارتوں کی شکل میں نقل ہوئی ہے، جب ظہور کو سرِ الہی قرار دیا گیا ہے اور اس کے وقت کا تعین خداوند متعال پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے "کذِب الوقاتون". (رجوع کریں الغیب (شیخ طوسی) اکمال الدین و اتمام النعم (شیخ صدوق) کتاب الغیب (نعمانی) اصول کافی (کلینی) اور دیگر منابع)
اس طرح کی روایات جو اگر متواتر نہ ہوں تو مستفیض ضرور نظر آتی ہیں قابل غور ہیں اور انسان کے دوش پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں۔ جس طرح اپنے خیال میں صحیح وقت کا تعین توقیت کے زمرے میں آتا ہے؛ واقعات کو حدود ظہور یا حدود قیامت کے عنوان سے بیان کرنا بھی توقیت کے زمرے میں آتا ہے۔
مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ وہ دس بجے ملاقات کے لئے آئے گا یا دس اور گیارہ بجے کے درمیان ملاقات کے لئے آئے گا اس نے گویا اپنی ملاقات کے لئے وقت کا تعین کیا ہے لہذا اگر اس متعینہ وقت پر ملاقات نہ ہوسکے تو اس شخص پر وعدہ خلافی کا الزام عائد ہوگا اور وعدہ خلافی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔
چنانچہ وہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں کہ مثلا امام مہدی علیہ السلام کے ظہور میں صرف دس سال رہتے ہیں یا آج کے بوڑھے بھی امام زمانہؑ  کا دیدار کرسکیں گے ان کو ایسا کہنے سے روکا گیا ہے اور ظہور کے لئے وقت کے تعین کی نفی کی گئی ہے۔
اب بعض لوگ  جن کا دنیا میں یہ تنا پیدا کرنے سے اصل مقصد و ہدف معلوم نہیں ہے  اپنے اعتقادات یا فرضیات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ فلاں وقت دنیا کے اختتام کا وقت ہے یا ظہور و قیامت کا وقت ہے اور اس سلسلے میں طاقتور ابلاغی و تشہیری ذرائع اور ٹیلی ویژن و سینما وغیرہ جیسے تمام اوزاروں کو بروئے کار لا کر اپنے پلید افکار کو لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں تا کہ اس خفیہ مقصد تک پہنچ سکیں۔
جو مسلمان اپنے دین اور قرآن پر ایمان کامل رکھتا ہے اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس طرح کے جھوٹے القائات کو قبول کرے اور اس کو اپنے امور  و معاملات پر اثر انداز ہونے دے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ وہ ہر وقت قیامت کی ہولناکیوں کے بارے میں سوچے اور اپنے اعمال پر کڑی نگرانی کرے کیونکہ اس کے پاس اللہ کے سوا کوئی مفر اور پناہگاہ نہیں ہے اور بس مومنین ہیں اہل فلاح اور رستگار اور نجات یافتہ ہیں اور صرف اللہ ہی کی پتاہ میں ہر گزند سے امان پاتے ہیں۔
اب ان لوگوں کو پناہگاہ بنانے دیں جو لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے وقت اور فرائض کا تعین کرتے ہیں اور اپنے آپ کو نجات یافتہ اور جدید دنیا کے وارث قرار دیتے ہیں؛ اور انہیں جان لینا چاہئے کہ:
"ید اللہِ فوق یدِیہِم"۔ (سورہ فتح آیت 10)
اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں کے اوپر۔
ممکن نہیں ہے کہ وہ اس انجام سے چھٹکارا پائیں جو ان کا انتظار کررہا ہے اور اللہ تعالی نے ان کو اس کا وعدہ دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.